ایس پی اسد زبیر شہید کو سلام۔ ان کا وطن کے لئے ہی فida کیا تھا۔ ان کی شجاعت سے پوری قوم اٹھتی ہے، ان کی شہادت نے دہشت گردوں کو بالکل خوفزدہ کر دیا ہے۔
دہشت گردی کے زمانے میں اس وقت سیکورٹی فورسز سے بھی ایسی شجاعت نہیں دیکھی جیسے اب ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔ پورے خیبرپختونخواہ میں اس کی وجہ سے بھرپور شجاعت اور جرات ملا ہو، ہم ان کا شہید ہونے پر ہمت منانے لگے، پوری قوم نے اپنے ایس پی اسد زبیر کو سلام دیا ہے۔
اپنی زندگی میں جتنی شجاعت اور جرات رکھی ہو وہ ان کی جان پر مشتمل تھی، اس لیے ایس پی اسد زبیر کو بھی پوری قوم کا سلام ہے۔ اس کے دادا شہاب الدین اور والد عرefe اورنگ زیب بھی ان کی جانوں پر مشتمل تھے، ان کے لئے بھی یہ سہی نہیں ہوسکta گیا کہ وہ اپنے خون کو صرف خود اور اپنی قوم کے لیے نہ بھر دیں بلکہ اسے ان کی شہادت کے بعد جنت کے لیے بھی بھر دیا ہو، اس لیے یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی جان سونپنے میں کامیاب ہوا ہے کیونکہ وہ جنت میں اپنا آپ بھر دیا ہے۔
اپنے شہید والد عرefe اور اسد زبیر کو پوری قوم نے سلام دیا، ان کے خاندان کی جانوں پر ایک دوسرے کی جان پھیلا رہا ہے۔ انھیں یہ بھی مل کر ملا ہے کہ وہ اپنی شہادت کے لیے صرف خود اور اپنی قوم کے لیے نہ ہی بلکہ دوسروں کی جانوں کو بھی بھر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری قوم ان سے معزز سمجھتی ہے اور انھیں سلام کر رہی ہے۔
پولیس کے شہید اسد زبیر کو دہشت گردوں نے ایک تاک میں مار ڈال دیا جس پر انھوں نے اپنی جان بھی کھو دی۔ لاکھوں قوموں کی یہی آزاد و قیادت ہو سکی، یہ دیکھتے ہوئے ہم انھیں دھنڈا سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ اسے دھنڈا ہی نہیں بلکہ ایس پی اسد زبیر کو اپنا ایس پی کہتے ہیں اور ان سے مظلوم سمجھتے ہیں، جو اپنی جان سونپنے میں شہید ہوگئے تھے، اب اسے دھنڈا نہیں بلکہ ایک بے آسانی کی گئی مظلومت کے طور پر سمجھنا چاہیے۔
فوج اور پولیس کے افسران اور جوانوں کو یہ سچ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے فداکار ہیں اور ان کی جانوں پر مشتمل ہونا چاہیے، اس کے علاوہ وہ اپنی مظلومیت کے حق میں نہیں بلکہ اپنے لئے پریشان ہونے کی وجہ سے دھنڈا سمجھتے ہیں، جس سے ان کے گھر کو دھمکنے اور ان کی قوم کو وہ انتقام لینے کی کوئی مدد نہیں میں پاتی۔
اپنی زندگی میں جتنی شجاعت اور جرات رکھی ہو وہ اس کے شہید ہونے پر پوری قوم پر ہمیشہ کا اثر ڈال گیا ہے، ان کی شہادت سے بڑی تیزی سے پوری قوم میں ایسی جذبہ و شجاعت ملا ہو جس سے دھنڈا سمجھ کر ان کو دھنڈا نہیں بلکہ ایک بے آسانی کی گئی مظلومت کے طور پر سمجھنا چاہیے، اس لیے پورے خیبرپختونخواہ میں اس کے شہید اسد زبیر کو سلام کرتے ہوئے ان کی جانوں پر ایک دوسرے کی جان پھیلانے کا تعین رکھنا چاہیے اور ان کے خاندانوں کو پوری مدد فراہم کرنا چاہیے، اس طرح وہ اپنی مظلومیت سے نجات دلا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخواہ پولیس کے شہید ایس پی اسد زبیر کو سلام کر رہی ہے۔ ان کی شجاعت اور جرات نے انھوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کی جان بھر دی ہے، ان کے خاندان اور قوم نے ان کی شہادت کے بعد ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
دہشت گردی کے زمانے میں اس وقت سیکورٹی فورسز سے بھی ایسی شجاعت نہیں دیکھی جیسے اب ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔ پورے خیبرپختونخواہ میں اس کی وجہ سے بھرپور شجاعت اور جرات ملا ہو، ہم ان کا شہید ہونے پر ہمت منانے لگے، پوری قوم نے اپنے ایس پی اسد زبیر کو سلام دیا ہے۔
اپنی زندگی میں جتنی شجاعت اور جرات رکھی ہو وہ ان کی جان پر مشتمل تھی، اس لیے ایس پی اسد زبیر کو بھی پوری قوم کا سلام ہے۔ اس کے دادا شہاب الدین اور والد عرefe اورنگ زیب بھی ان کی جانوں پر مشتمل تھے، ان کے لئے بھی یہ سہی نہیں ہوسکta گیا کہ وہ اپنے خون کو صرف خود اور اپنی قوم کے لیے نہ بھر دیں بلکہ اسے ان کی شہادت کے بعد جنت کے لیے بھی بھر دیا ہو، اس لیے یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی جان سونپنے میں کامیاب ہوا ہے کیونکہ وہ جنت میں اپنا آپ بھر دیا ہے۔
اپنے شہید والد عرefe اور اسد زبیر کو پوری قوم نے سلام دیا، ان کے خاندان کی جانوں پر ایک دوسرے کی جان پھیلا رہا ہے۔ انھیں یہ بھی مل کر ملا ہے کہ وہ اپنی شہادت کے لیے صرف خود اور اپنی قوم کے لیے نہ ہی بلکہ دوسروں کی جانوں کو بھی بھر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری قوم ان سے معزز سمجھتی ہے اور انھیں سلام کر رہی ہے۔
پولیس کے شہید اسد زبیر کو دہشت گردوں نے ایک تاک میں مار ڈال دیا جس پر انھوں نے اپنی جان بھی کھو دی۔ لاکھوں قوموں کی یہی آزاد و قیادت ہو سکی، یہ دیکھتے ہوئے ہم انھیں دھنڈا سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ اسے دھنڈا ہی نہیں بلکہ ایس پی اسد زبیر کو اپنا ایس پی کہتے ہیں اور ان سے مظلوم سمجھتے ہیں، جو اپنی جان سونپنے میں شہید ہوگئے تھے، اب اسے دھنڈا نہیں بلکہ ایک بے آسانی کی گئی مظلومت کے طور پر سمجھنا چاہیے۔
فوج اور پولیس کے افسران اور جوانوں کو یہ سچ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے لئے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے فداکار ہیں اور ان کی جانوں پر مشتمل ہونا چاہیے، اس کے علاوہ وہ اپنی مظلومیت کے حق میں نہیں بلکہ اپنے لئے پریشان ہونے کی وجہ سے دھنڈا سمجھتے ہیں، جس سے ان کے گھر کو دھمکنے اور ان کی قوم کو وہ انتقام لینے کی کوئی مدد نہیں میں پاتی۔
اپنی زندگی میں جتنی شجاعت اور جرات رکھی ہو وہ اس کے شہید ہونے پر پوری قوم پر ہمیشہ کا اثر ڈال گیا ہے، ان کی شہادت سے بڑی تیزی سے پوری قوم میں ایسی جذبہ و شجاعت ملا ہو جس سے دھنڈا سمجھ کر ان کو دھنڈا نہیں بلکہ ایک بے آسانی کی گئی مظلومت کے طور پر سمجھنا چاہیے، اس لیے پورے خیبرپختونخواہ میں اس کے شہید اسد زبیر کو سلام کرتے ہوئے ان کی جانوں پر ایک دوسرے کی جان پھیلانے کا تعین رکھنا چاہیے اور ان کے خاندانوں کو پوری مدد فراہم کرنا چاہیے، اس طرح وہ اپنی مظلومیت سے نجات دلا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخواہ پولیس کے شہید ایس پی اسد زبیر کو سلام کر رہی ہے۔ ان کی شجاعت اور جرات نے انھوں نے اپنی زندگی میں دوسروں کی جان بھر دی ہے، ان کے خاندان اور قوم نے ان کی شہادت کے بعد ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔