اعظم خان کو جیل بدلے جانے پر انکاؤنٹر کا - Latest News | Breaking New

محفلِیار

Active member
اعظم خان کی جانب سے رامپور سے سیتاپور منتقل ہونے پر انکاؤنٹر کا ایس پی لیڈر کپل سبیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبیل کے ساتھ پھل-फوںک کا ایک طویل ویڈیو شائع ہوا جس میں اعظم خان نے اپنے درد اور اپنی سیاسی تاریخ کو بتایا۔

اعظم خان نے اس وقت کی صورت حال سے متعلق بات کی جب ان کے خلاف 94 مقدمات زیر التوا تھے اور انہیں غداری اور دوسرے الزامات میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس وقت اعظم خان نے بتایا کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے اور ایمرجنسی کے دوران انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔

اعظم خان نے اپنی جیل کی مدت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے علی گڑھ سے رامپور بھیجے گئے تھے اور اس کے بعد انہیں جیل میں ایک تاریک کوٹھری میں رکھا گیا جس میں سندر ڈاکو قید تھا۔ اعظم خان نے بتایا کہ جب انہیں ضمانت مل گئی تو ان کے خلاف MISA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں جیل سے رامپور پہنچنے پر لاکھوں مزدوروں اور بنکروں کی آواز ملی۔

انہوں نے وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کی بھرپور تعریف کی اور بتایا کہ وہ ایک بدترین قانونی دھندے اور جبزانی وہ بھی تھے جو انہیں جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔

اعظم خان نے کپل سبیل سے اپنے درد کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ ان کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گئے تھے جو اس وقت بے بنیاد قرار دیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو انہیں ایمرجنسی کے دوران غداری کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور جب وہ جیل سے رامپور پہنچے تو بیڑی مزدوروں اور بنکروں کی آواز ملی۔

انہوں نے کہا کہ ان کے لیے اب انتقام کی سیاست حاوی ہو چکی ہے اور وہ اس کی مخالف ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا اور اس وقت ان کے لیے ایک الگ گاڑی رکھی گئی ہے جہاں سے وہ اپنے خلاف زبانی ماجہ کی سزا لے سکیں گے اور ایس پی لیڈر کپل سبیل کو اپنا بیٹا سمجھیں گے۔
 
اس وิดیو نے مجھے ہوا دہلی کے بعد بھی بھیڑ مچانے کی تلاش میں کپل سبیل کو دیکھا ہے، اس میں انہوں نے اعظم خان سے درد اور سیاسی تاریخ کے بارے میں بات کی ہے، ایس پی کےLeader Kappal Subel aur Rajya Sabha ki Member kapil subil ke saath ek long video shai hai.
 
اس وقت اعظم خان کو جلاوطن کر دیا گیا ہے تو یہ ایک بدقسمتی ہے لیکن وہ بھی اس سے مزید استعمال کرتے ہوئے اسے اپنی سیاسی تاریخ میں ایک نئا chapters ملا چکا ہے۔

ان کی جیل کی مدت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے علی گڑھ سے رامپور بھیجے گئے تھے اور اس کے بعد انہیں جیل میں ایک تاریک کوٹھری میں رکھا گیا جس میں سندر ڈاکو قید تھا، یہ ان کے لیے ایک نئا ایجنڈا بن گیا تھا اور وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں بھی استعمال کر کے اپنی سیاسی تاریخ میں ایک نئا pages شامل کیے گئے ہیں۔
 
ਬੇ ਸچائی، ਕਪਲ ਸਬੀਲ ਨੂੰ یہ بھੀ بੋਝنا چاہیے کہ وہ 94 مقدمات کس سے لائے؟ اور کپل سبیل نے اس وقت تک کیا تھا؟ ایس پی کوئینٹر کی پریشانیوں کے لیے معاف نہیں ہوتا، ان پر بھی اس طرح کے الزامات لگنے چاہیے نہیں؟
 
ایس پی کے رکن کی گئی بات تو بالکل سچ ہے جبکہ اعظم خان کے درمیان پھل-फوںک اور کپل سبیل کے ساتھ مہلت ملنے کی بات ایسی نہیں تھی جو بچا رہا ہوا ۔ وہ انصاف کی گئی بات کو دیکھ کر کبھی اور بھی اپنی آواز بلند کریں گے ۔
 
یہ دیکھ کر منے کہ پوری رامپور نے اعظم خان کی واپسی پر ہمیشہ سے ٹھہرایا ہوا ہے، اس شخص کو جسے ابھی تک جیل میں بھیجا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے تھے، اب وہ اپنی سیاسی تاریخ اور درد کے بارے میں لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔

یہ دیکھنا ہی دل داری کا باعث بنتا ہے کہ اس شخص نے ان کی جان پر جبلا پہنا تھا، اور اب وہ اپنی حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں، یہ سب ان کے لیے ایک بڑی جیت ہو گی، کیونکہ وہ نے ایسے الزامات کی طرح کھیلے تھے جن کا جواب اب انہیں ملتا ہے۔
 
اکرم خان کی جانب سے رامپور سے سیتاپور منتقل ہونے پر بہت متاثر ہوں۔ یہ بات حیران کن ہے کہ انھیں ایس پی لیڈر کپل سبیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبیل سے پھل-फوںک کا ایس ایم ویڈیو شائع ہوا جس میں انھوں نے اپنے درد اور اپنی سیاسی تاریخ کو بتایا ہے۔ لگتا ہے کہ اعظم خان کے لیےPoliticsہ سے جو بھی وہ پہلا تجربہ دیکھتے ہیں وہ دوسرے لوگوں پر ٹھیک ہوتا ہے اور ان کے لیے politics بھی اس طرح سے ہی چلا جاتا ہے۔ 😕
 
یہ بات تو چیلنجنگ ہے کہ جب آپ اپنی حقیرگیوں سے نمٹنے کے لیے ایسے لوگوں کو ذمہ دار بناؤں جو آپ کے خلاف آپ کے اپنے حقوق کی وہی قوت استعمال کر رہے ہیں جس سے آپ خود محفوظ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعظم خان نے اپنے درد کو شائع کیا اور اپنی سیاسی تاریخ پر روشنی ڈالی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا ایسے لوگوں سے معاف ہونا جو نئی سیاسی طاقتوں سے جڑے ہوئے ہیں وہ اس وقت تک محفوظ رہتے ہیں جب تک وہ اپنی حقیقت کو چھپایا کرتے ہیں۔
 
اصzem خان کا یہ ویڈیو دیکھ کر متاثر ہوا، ان کی جیل کی مدت پر زور دیتے ہوئے یہ بات بھی کوئی نہ کوئی جانتا ہو گا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے، وہ کس طرح لوگوں کی آواز سنکرتے ہیں اور ان کے لیے ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو اس وقت بھی غیر معتبر سمجھی جاتی ہے
 
میری رائے کے مطابق اعظم خان کی جانب سے شائع ہونے والے وہ ویڈیو جو کپل سبیل کے ساتھ شائع ہوا۔ ایک طویل اور فریڈم لینا پھیل-फوںک ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اعظم خان نے اپنےPolitics اور Politics کی تاریخ کو بتایا ہے جو وہیں لائی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب انہیں جیل میں بھیج دیا گیا تھا تو ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور ان کو وہیں رکھ دیا گیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اعظم خان کو اپنی جان پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی جان بھی جائی گئی اور وہ جیل سے رامپور پہنچتے ہی مزدوروں اور بنکروں کی آواز ملی جو انہیں جیل میں رکھ دیا تھا۔

انہوں نے وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کی بھرپور تعریف کی اور کہا کہ وہ ایک بدترین قانونی دھندے اور جبزانی تھے جو انہیں جیل میں بھیج دیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اعظم خان کو پتہ چلا کہ ان کی سیاسی تاریخ پر اس وقت کےPolitics اور Politics کی تاریخ کو بتایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو انہیں ایمرجنسی کے دوران غداری کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا تھا اور جب وہ جیل سے رامپور پہنچے تو بیڑی مزدوروں اور بنکروں کی آواز ملی جو انہیں جیل میں رکھ دیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اعظم خان کو پتہ چلا کہ ان کی جان پر انتقام کی سیاست حاوی ہو چکی ہے اور وہ اس کی مخالف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تو انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا اور اس وقت ان کے لیے ایک الگ گاڑی رکھی گئی ہے جہاں سے وہ اپنے خلاف زبانی ماجہ کی سزا لے سکیں گے اور ایس پی لیڈر کپل سبیل کو اپنا بیٹا سمجھیں گے۔
 
اس معاملے میں اعظم خان کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی تاریخ اور اس وقت کی صورت حال کو دیکھ کر بے حد غضبزاد ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ان کے خلاف 94 مقدمات زیر التوا ہیں اور وہ جیل میں رکھے گئے تھے جس سے ان کی زندگی کی ایک بدترین چوٹ لگی۔

لگتا ہے کہ اعظم خان نے اپنے درد کو دیکھتے ہوئے کپل سبیل سے ملاپ کیا ہے جو اب وہ ان کا ایس پی لیڈر بن کر ہیں۔ اس معاملے میں یہ بات بھی زہر کی بوتی ہوئی ہے کہ اعظم خان نے وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کی بھرپور تعریف کی ہے جو اس وقت ایک بدترین قانونی دھندے اور جبزانی سمجھے جاتے تھے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اعظم خان کوPolitics میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے اس سے پہلے بھی اپنے سیاسی سفر کا تعلیم دیا ہے۔
 
اس طرح کی سیاست پھیلانے والوں پر نا پچت بھی نا پچتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی اور مانیسی صحت کتنے عرصے سے ٹکراتی رہی ہو۔ انہیں کبھی نہ بھگتنا چاہئے ہو گا اور پھر جیسے جیسے زمانہ بدلتا گیا وہ بدلتے رہنے کو جانتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے کی وہ اپنی گALTوں سے سکواڑ پائے!
 
تحرک کن ہے اس وقت کی صورت حال جب اعظم خان نے ان کے خلاف زبانی ماجہ کی سزا لینے والوں کو اپنا بیٹا سمجھایا ہو اور وہ اپنی سیاسی تاریخ کا احترام کر رہے ہیں جو اب ان کی جان سے نکل گئی ہے۔ جب سے اعظم خان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا تو وہ ایک بدترین قانونی دھندے اور جبزانی کی طرح بھی تھے جو انہیں جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔

اب ان کی جان سے نکلنے والی سیاسی تاریخ کا احترام کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے، لیکن اس پر اعظم خان کی واضح پریشانیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ان کے مابین Politics اور Pain کی تنگ آڑ اور Kya Hai Kuchh Naa Koi اور Apni Jaan Ki Baat Yeh Aai Hain Jawaab Nahi دھول میں کچلے گئے ہیں۔
 
یہ بھی دیکھو کہ کسی بھی شخص کی زندگی ایک طویل سفر ہے اور وہ ان تمام تجربوں سے کیسے سीखتا ہے۔ اعظم خان کی جانب سے رامپور سے سیتاپور منتقل ہونے پر میری بھی سوچ آئی کہ وہ بھی اپنی زندگی کا ایک نواں chapters شروع کر رہے ہیں، لیکن یہ بات بھی دیکھو کہ ان کی زندگی میں کوئی بھی صورتحال ان کی زندگی کو تبدیل کر سکتی ہے اور وہ اپنی زندگی کو ایک نواں راستہ दیتے رہتے ہیں۔
 
واپس
Top