بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول،ہمیں دھمکی قبول نہیں،فضل الرحمان - Ummat News

دلنواز

Active member
انقلاب کی نائٹ میں حکومت نے دھمکیاں دے کر مدارس کے حوالے سے دباؤ اور دھمکیوں کی مذمت کی، ملتان میں علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انہیں مسترد کر دیا، اس نے کہا کہ مدارس کے روایتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دی ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب حکومت مدارس کے اہلِ علم کے لیے مالی مدد کی پیشکش کرتی ہے تو یہ امداد کن مقاصد کے لیے کی جا رہی ہے اور ضمیری آزادی کا سودا نہیں کیا جا رہا، انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کے ساتھ توسیع کی ضرورت ہے، جس پر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہے کہ ایک اور نئی حکومت ملکی پالیسیوں کو جاری رکھنے اور ان میں تبدیلیاں لانے میں صلاحیت دکھائی دے سکتی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے حکومت کی غفلت پر بھی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب زدگان کے حوالے سے اس معاملے میں کوئی سرجری نہیں کی گئی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں اپنی قربانیاں تسلیم کرنا ہونی چاہیے۔
 
اس وقت کے اس معاملے میں جو ہو رہا ہے وہ سچوچھلے جاننے کی ضرورت ہے، सरकار کے ان بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بہت تیز گتاری کر رہی ہیں اور ہمارے مذہبی اداروں کی جانب سے یہ ایسی نئی لہر آ رہی ہے جو اس معاملے کو ایک بھری ہوئی شاعرانہ ماحول میں تبدیل کر رہی ہے۔
 
یہ واضح ہے کہ حکومت نے ابھی تک مدارس کے حوالے سے لوگوں کو اس کی مدد کے لئے بے گناہ سمجھا، اور حال ہی میں انہوں نے ان کی مدد کے لئے پیسہ دیتے ہوئے ابھی سیلاب زدگیوں کا معاملہ بھی جاری رکھ دیا، یہ ایک غلط فہمی ہے اور ان لوگوں کو جو اس معاملے میں اپنی قربانیاں تسلیم کرنے سے محرب ہوتے ہیں ان کا یہ جذبہ بھی عجیب ہے، حکومت کو ایسا نہ کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو محسوس ہو اور ان کی اس غم گینہ کا سامنا کرنا پڑے
 
بغیر کسی تشویش کے میں بتاؤ کہ مدارس کے حوالے سے یہ دھمکیاں اور پریشانیاں اس بات کو ظاہر کر رہی ہیں کہ ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے یہ کافی ضروری ہے، حالانکہ پچھلے سال سیلاب میں ہونے والی مصائب کو یہ معاملات اس قدر متاثر نہیں دیکھ رہے ہیں
 
اس حکومت کا پھر ایسا ہی محض سیاسی لین-दین ہو رہا ہے، دوسری بار مدارس کی بات کرتی ہے اور ان کی مدد کی وعدے کی چوری کر رہی ہے، یہ بھی تو سچ ہے کہ علماء نے انہیں مسترد کردیا ہے، لیکن یہ سوال ہو گا کہ آگے کس کی آئندہ ہو گی، ایسی ہی حکومت جس نے سیلاب زدگان کے حوالے سے کوئی سرجری نہیں کرائی تو اس کی ہمت کیسے ہو سکتی ہے؟
 
ہر جگہ ایسے لوگ آ رہے ہیں جو مدارس کی سرکھیا کرتے ہو، اور یہ فریڈوم نہیں آتا بلکہ ہر کسی پر جائزی سے کچھ کرنا چاہتے ہیں
 
اس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مدارس کی دباؤ و دھمکیوں پر حکومت کی پوسٹنگ کی سیریز انقلاب کی نائٹ پر انھیں کیسے مقbol کرائی گئی؟ اور اس کے بعد کیا ہوا؟ اسی طرح یہ بھی کہنا چاہئیے کہ دھمکیوں کی پوسٹنگ پر بہت سے علماء نے اپنی مظالم و احتیاط آہستہ کر دیا ہے اور اس معاملے میں جس طرح سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کردار رہا ہے انھوں نے بہت سچائی کے ساتھ اپنی مظالم کو ظاہر کیا ہے، اس کی وہ پریشانی کے حل میں یہی نہیں ہو گا کہ انھوں نے سیلاب زدگان کی دھمکیوں کو بھی آہستہ کر دیا ہو؟
 
انقلاب کی نائٹ میں دھمکیاں دیتے ہوئے کہیں انھوں نے سیلاب زدگان کی پیداوار کو یقین دلایا؟ انھوں نے جب تک مدارس میں دباؤ اور دھمکیوں کی مذمت کی تو کیا انھوں نے اس وقت میڈیا سے بات کی تھی، ابھی تک یہ معاملہ انھیں ڈر کا باعث بن رہا ہے
 
مادrasا کے حوالے سے دباؤ اور دھمکیاں تو میرے لئے ایک بد عمدی بات ہیں ، یہ کہ حکومت نے دھمکیاں دیں اور اس پر علماء کو انھیں مسترد کرنا پڑا ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب یہ معاملہ 10 سال قبل سے چلا رہا تھا تو یہ نہیں تھا کہ آج سے اس پر دھمکیں دیں ، میرے خیال میں اس پر حکومت کی غفلت بھی انھیں مسترد کرنے کی وجہ ہو سکتی ہے ، اور یہ بات بھی کہ مدارس کو دباؤ اور دھمکیوں سے تو نہیں لگتا تھا لیکن جب یہ معاملہ لوگوں کے سامنے آ گیا تو اس پر دھمکیاں ڈالیں اور یہ انھیں مسترد کرنے پر مجبور کر دیں ، میرے خیال میں اس معاملے کی جائے دباؤ کو حل کیا جا سکتا ہے اگر حکومت اس معاملے پر واضح رائے واضح کریں اور لوگوں کے سامنے یہ بات تسلیم کرنے کی کوشش کریں کہ وہ مدارس میں وٹس کو سجائے یا انھیں 10 سال سے جاری ہونے والا معاملہ حل کیا جا سکta ہے۔
 
واپس
Top