بلوچستان میں بھاگ میں ایک تھانے اور نیشنل بینک پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے تھانے میں موجود کھلے ذمہ دار کاروں نے دہشت گردوں کو بھرپور مقابلہ کیا اور دو دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا۔
اس میں ایس ایچ او اور کانسٹیبل نے بہادری سے حملے پر جواب دیا، لیکن انہیں گولی لگنے سے شہید کیا گیا۔ اس حملے کے بعد ان کے جسمان کو سول اسپتال لایا گیا اور حکام نے حملے کے محرکات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
بلوچستان میں یہ حملہ تو بھاگ میں ہوا پورا تھانہ اور نیشنل بینک دہشت گردوں کا ایک دوسرا تھانا بن گیا! لگتا ہے کہ دہشت گردوں کو کچلنے کی بات کرنا بھی بہت محنت ہوتی ہے، پھر نہیں تو ان کے جسم سے لڑائی چھوڑ دی جاتی ہے!
ان ہلچلوں میں شہید ہونے والے پولیس اور ایشٹ ویل نے دھومڑتے ہوئے ڈرامے کا مظاہرہ کیا! اس جسمانی پہلو کو چھوڑ کر ان کی شہادتی کے محض جوہری عناصر کو دیکھنا بے لطف ہوتا ہے, وہ جان بھی رکھتے تھے!
جب تک پھینکتے رہوں تو یہ سچ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کو لانے والوں کی قوت کو کبھی نہ کبھرایا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات سچ ہے کہ تھانے میں موجود کھلے ذمہ دار کاروں کی جانب سے بھرپور مقابلہ دیکھنا بھی ایک بڑا موقع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جس نیند میں بھی نہیں رہتے جو ساتھ ان کی جان پر کھیلتا رہتا ہے۔
بلوچستان میں ایسا پھیلنہ ہوا تو حال ہی میں تھانے اور نیشنل بینک پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا، یہ بہت گھمندہ ہے! ان تھانے والوں کی بہادری کا شک کرنا پائے گا جو دہشت گردوں کو جواب دیا، اس سے کہہنا مشکل ہے کہ وہ کس کے خلاف Fight kar rahe the. پھر بھی یہ ہمیں سمجھنے کا موقع دیتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کو کبھی بھی نہیں بنایا جا سکتا.
ایس تو بھی بتا دو اس حملے سے بعد والے پچھلے روز ہی دوسری تھانے پر ہوا تھا اور کئی ڈیرے نے بھی شہید ہوگئے اور میری جسمانی اسٹرکچر نہیں ہے لاکہ mental strength kaisi hai wo bhi kyu nahi jaanta
ایسے حالات میں ان شہدائوں کی جان پر زبانی شہادت دی جاتی ہے وہاں پہلے سے بھی دہشت گردوں کو بھرپور مقابلہ کرنا مشکل لگ رہا ہے۔
اس وقت گولی لگنے والوں کا یہ نتیجہ کیسے چالھ سکتا ہے?
یہ کیا بات ہے، تھانے میں دہشت گردوں پر خلاف کار اس طرح سے جواب دیا گیا ہے؟ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان گلی کو کس نے چلایا ہے، ان شہداؤں کی جانوں پر اسے جواب کیسے دیا جائے؟ بہادری سے جواب دینا یقینا اچھی بات ہے لیکن یہ نہیں کہ ایسا جسم پر بھار کر رکھا گیا، ان شہداؤں کو سول اسپتال میں لایا گیا؟ یہ سچ ہے کہ دہشت گردوں نے حملہ کیا اور وہ جہنم پر چلے گئے لیکن ان کی جانوں کو بھی جان لیوا کر دیا گیا، یہ ایک عجیب بات ہے
بلوچستان میں ایسا ہوا جو ابھی بھی لگ رہا ہے کہ تھانے اور نیشنل بینک دونوں پر دہشت گردوں کی حملے جیسے کہ بھاگ میں ایسا ہوا تھا، جب تک انہیں مقابلہ نہیں کیا جا سکا تو کچھ اور لاکھوں پیسہ لگ گیا ،لیکن ابھی تک کسی نے بھی اس پر جواب نہیں دیا ہے۔
تین ماہ میں بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں 250 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ،اسکول کے ہال میں ایک تھانے پر ایسا ہوا اور نیشنل بینک پر تو اس کی جگہ میرینز آف پاکستان سے لے لی گئی ۔
دہشت گردوں کے حملوں میں شہید ہونے والا بلوچستان کی آبادی 40 فیصد ہے ،اس سے بھی زیادہ پاکستانیوں کو بھی نقصان ہوا ہے،
دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملوں کی تعداد میں سال 2001 سے 10 فیصد تک اضافہ ہوا ہے ،پاکستان میں تو یہ 40 فیصد تھا۔
اس حملے پر غور کرتے وقت، مجھے ان کھلے ذمہ دار کاروں کی بہادری کا اچھا لگتا ہے جو تھانے میں موجود تھے، انھیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ دھمکیاں ایسے لوگوں سے ہوتی ہیں جو معاشرے میں آئندہ نسل کی زندگی مننے میں خوفزدہ ہوتے ہیں! پھر بھی ان کا مقابلہ کرنا، وہ اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ معاشرے میں خوفناک سلوک نہیں جاری رکھا جا سکتا!
یہ تھانے پر دہشت گردوں کو مقابلہ کرنا ایک بہت بڑا عمل تھا اور اس پر کONSٹیبلز نے اپنی جاندار پہچان کی ہوئی ایسی بہادری مظاہر کی۔ لیکن یہ بات بالکل دوسری جانب سے اڑ رہی ہے کہ انہیں گولی لگنے کے بعد جسم کو اسٹئیشن پر لایا گیا تھا کیوں نہ یہ تھانے یا اس کی پالیسی کیا ہے؟ ان شہیدوں کی جان کو کس نے ذمہ دار بنایا تھا؟ یہ بھی بات نہیں کہ انہیں سول اسپتال میں لایا گیا تو اس لئے کہ اس پر ایک لچکدار پالیسی ہو، یا اس پر ایک خاص مانیپülیشن کی تھی؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی بھیڑ کیسے منہ سہمای نہیں ہوگی?
یہ واقعہ تو انتہائی خوفناک ہے، مگر یہ سوال ہے کہ اس حملے میں سے جو لوگ جانب دوٹتے ہیں وہ کس اقدار کی کامیابی رکھتے ہیں؟ پھر اس کی وجہ یہ نہیں بلوچستان میں دہشت گردی کی جڑاں توڑنے والے لوگ کی ہیں یا وہ جانب دوٹتے ہوئے لوگوں نے انہیں یہ اقدار دیکھ کر اپنی پوری زندگی لپेट لی ہو؟ سول اسپتال میں جسمان کو لایا گیا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس حملے کے بعد بہادرانہ طور پر جانب دوٹتے ہوئے تھے بلکہ وہ ایس ایچ او اور کانسٹیبلز کی بہادری کو دیکھ کر گولیاں لگنے سے شہید ہوئے، یہاں تو اس شخص کا فائدہ اٹھانا مشکل ہوگیا ہوتا، مگر انسان کی جانوں کو بھی جانب دوٹنا ہی نچوڈا ہوگا!
بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے سے بھاگنے والے اس تھانے کو بھی پوراcredit milla hai, ان کھلے ذمہ دار کاروں نے دہشت گردوں کا بھرپور مقابلہ کیا! #DeshBharatKoJai
اسکيچ:
جسمانی طور پر ان شہداء کی زندگی کو ہمیشہ یाद رکھیں، انہوں نے اپنی جان کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا! #ShahadatKeLayak
سول اسپتال میں ان کی جسمانی سرجری، انہیں پہلے سے ہی شہداء میں شامل کیا گیا! #DeshKaShaukeen
جب تک ہم اپنے شہر میں اس سے بڑھتے ہوئے تباہی اور دہشت گردی کی سائنوں کو نظر کرتے ہیں تو یہ ایک گہری پریشانی ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک دہشت گرد حملے کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں دو بدمزیدین کو جنت لانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن منظر سے نکل کر، یہ ایک بڑا حقیقی پریشانی ہے جو ہم سب کے دماغ اور ذہن کو جاری رکھتی ہے۔
شہید ہونے والوں کی جانب سے بہادری اور مقbolیت کی یہ جانشین کیا جانا چاہیے، لیکن اس پر ایک لامحدود پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ دہشت گردوں کو جھیلنا ایسا ہی ہے جو ان کے دھنڈوں کو بڑھاتا ہے، اور ہم سب کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آواز اٹھائے، اس پریشانی سے نکل کر۔
ਇੰਟਰنੈੱਟ 'ਤੇ یہ نئا سا ہوا ہے! بلوچستان میں ایس ایچ او اور کانسٹیبل کو شہدائیت کا سامنا کرنا پڑا، ابھی تو انھیں گولیاں لگنے سے بچایا جاسکتا تھا! یہ سروس میرے ساتھ واپس آئی!
یہ بھی ہوا نہیں دیکھ سکا، ایس ایچ او اور پولیس جانتے ہیں کہ انہیں گولی لگنے سے شہید نہیں کیا جاتا، وہ صرف اپنے فرسٹ رینکو کھلے ذمہ دار کاروں کو ہلا کر دیتے۔ میرے لئے یہ ایک بھارے راز سے منسلک ہوا، میرا ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردی کا اہتمام کرتے ہوئے وہ لوگ ساتھ ہی اپنے آپ کو بھی مار رہے ہوتے ہیں، میرے لئے یہ ایک بہت گھنا جال ہے جو اس ملک میں پھیلے ہوئے ہیں...
بھاگ میں ایس ایچ او اور کانسٹیبلز کو شہید کیا گیا تو یہ ایک بڑا دھوکہا بننا ہی نہیں، ان کے جسموں کو اس طرح سے لایا جانا اور سول اسپتال میں رکھا جانا بھی ایسا کہنے کی بات ہی نہیں। پھر اس میں کیا حقیقت ہوگی؟ کیا دھوکہا بنایا گیا اور ان کے جسموں کو ایسے لایا گیا تاکہ ان کی موت کے بعد بھی ملک میں تنش واضح ہوگی؟ یہ سچنا بھی ضروری ہے کہ حملے کے محرکات کی تحقیقات ہو اور اس پر جواب دے دیا جائے।