بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور اتحادیوں نے آئندہ قومی ریفرنڈم میں ’ہاں‘ کو ووٹ دینے کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ریفرنڈم جولائی چارٹر میں کی گئی اصلاحات کو آئینی حیثیت دینے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے، اور جماعت اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ اس میں ’ہاں‘ کی مہم چلائی جائے گی۔
اتحاد میں شامل تمام جماعتیں پہلے ہی وسیع تر اصلاحات کی حامی تھیں اور اب بھی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک ہوگی۔ انہوں نے عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اصلاحات کی تفصیلات اور واضح طور پر سامنے لائیں گی۔
یہ بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ ایک حریف جماعت اپنی آن لائن ٹیم کے ذریعے ’نہیں‘ کی مہم چلا رہی ہے اور انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس سے قوم جان چکی ہے کہ اصلاحات کی مخالفت کون کر رہا ہے، اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جس شخص نے اس کے خلاف بیان کیا ہے وہیں اس پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سرکاری مشیروں پر الزامات ہیں اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محتاط رہنے کی ایک پکی صورتحال دیکھیں، اور چیف ایڈوائزر سے غیرجانبداری برقرار رکھنی کی اپیل کی گئی ہے۔
اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے کہا ہے کہ آٹھ جماعتی تحریک جاری رہے گی، اور ان کے کئی اہم مطالبات ابھی پورے نہیں ہوئے، اتحاد کی رابطہ کمیٹی آئندہ کے پروگراموں کا فیصلہ کرے گی۔
بنگلہ دیش میں اور یہ بات یقین رکھنا مشکل ہے کہ جماعت اسلامی اور ان کے اتحادیوں کی یہ مہم چلنے سے بھاگ بھاگ کر عوام میں ’ہاں‘ کی مہم چلنی ہے، کیونکہ پہلے سے ہی انہوں نے وسیع تر اصلاحات کے حامی تھے اور اب بھی عوام کی حمایت حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھ رہے ہیں… سچ میں یہ بات پوری ہوگئی ہے کہ وہ اور ان کی حریف جماعت نے آپ کو ’نہیں‘ کی مہم چلانے کی بات کھڑی کی ہے… یہ سب کچھ بہت حیران کن ہے
تھوڑا سا بھی اچھا ہونگے، جماعت اسلامی نے ووٹ دینے کی مہم چلا رہی ہے، یہ کیا دیکھنا ہے؟ وہ لوگ جو پہلے نہیں آئے تھے اور اب آئے ہوئے وہ بھی تو یہی بات کرتے رہتے ہیں۔ اور اس سے پہلے، وہ لوگ کون سی دلچسپی رکھتے تھے، آئندہ قومی ریفرنڈم میں یہ بات کیسے آئی؟
اتحاد میں شامل تمام جماعتیں ایک ہی بات کرتے رہتے ہیں، عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اچھا جھگڑا بھی نہیں کیوں؟ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ یہ اصلاحات سے چک کر رہے ہیں، اب ان پر زور دیا جاتا ہے اور اس پر مبنی الزامات لگائے جातے ہیں۔
سرکاری مشیروں پر الزامات لگانا اور غیرجانبداری کی اپیل کرنا، یہ کیسے کام کرے گا؟ وہ لوگ جو پہلے نہیں چکے تھے اور اب تو ان پر زور دیا جاتا ہے، اب اس پر اچھی طرح جاننا مشکل ہوگیا ہے۔
بنگلہ دیش میں یہاں کیا جانا چاہیے؟ کسی کی نیند کو بھگتایا گیا ہے؟ جماعت اسلامی اور اتحادیوں نے آئندہ قومی ریفرنڈم میں ’ہاں‘ کو ووٹ دینے کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے، اور یہ دیکھنا تو یقین رکھیں کہ کسی نے بھی توجہ نہیں دی ہوگی کہ عوام کی جانب سے اس پالیسی پر تشویش ہے یا نہیڹ؟ یہ رہا ایک دیکھ بھال نہیں بلکہ ایک سادہ سیاسی منافقت کا مواقع کا استعمال ہے جو لوگوں کو گھروں میں آٹھ اور نو کا درجہ حاصل کرنے سے بھی دور نہیں رہا۔
اس بات پر واضح طور پر انحصار ہے کہ عوام کون سے اقدامات سے موافق ہوں گے؟ آئندہ قومی ریفرنڈم میں ’ہاں‘ کو ووٹ دینے کی مہم چلانے کے نتیجے میں اور بھی زیادہ ناکارہ اقدامات کئے جائیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ آٹھ جماعتی تحریک جاری رہنے کی بات پوری طور پر تصور کی جا سکتی ہے، لیکن یہ بات حقیقت میں یقینی نہیں ہے کہ ان تمام جماعتوں کا ایک اور اہم مقصد ساتھ مل کر کام کیا جا پائے گا۔
لگتا ہە کہ جماعت اسلامی اور ان کی اتحادیوں نے ایک بڑا موازنہ فراہم کیا ہے جس سے عوام کو ووٹ دینے کی آگ پر تھم مچائی گئی ہے. لاکھوں لوگوں نے ’ہاں‘ پر ووٹ دیا ہو گا اور یہ دیکھنا بے مثال ہو گا۔ لیکن ابھی بھی کئی مायनے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جانب سے کیا جائے گا جو ’نہیں‘ پر ووٹ دیتے ہیں.
اس ریفرنڈم میں 'ہاں' کو ووٹ دینے کی مہم چلانی والی بھی جماعتیں ہیں جو جولائی چارٹر میں کی گئی اصلاحات کو آئینی حیثیت دینے کے لیے منعقد کر رہی ہیں؟ [link]
اس میں سے ایک بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور ان کے اتحادی ان کی مہم چلائیں گے تو کیا ووٹ دیئیں گے؟ مجھے یہ سوچنا ہی مشکل ہے کہ لوگ اپنے معاشرے میں ہو سکتے ہیں تو ووٹ ہی نہیں دیئے گا؟ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ ان کی مہم چلائی جائے گی تو عوام میں اس پر ایک رکاوٹ پیدا ہوگی…
نہیں تو یہ بات بھی پتہ چل گئی ہے کہ ’ہاں‘ کی مہم چلائی جائے گی، اور یہ واضح ہوگی کہ عوام میں ایسے لوگ ہیں جو آئندہ قومی ریفرنڈم میں ’ہاں‘ بھوٹ دیتے ہیں، اور انہیں تو پتہ ہوگی کہ یہ مہم اس کے ساتھ چلائی جائے گی یا اسے توڑ کر رک دیا جائے گا، لہذا میں یہ نہیں کہوں گا کہ عوام کو انہی لوگوں کی اچھائی یا بدامی بھی پتہ چلنے دی جائے گے
عوام میں ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کو بھی ووٹ دینے کی مہم چلانے کا یہ اعلان ایک طاقتور سیاسی معاملہ بن گیا ہے۔ میں نے بھی ان لوگوں سے پوچھا تھا جو ’نہیں‘ کی مہم چلا رہے ہیں کہ اس پر اٹھ کر انھوں نے کوئی نتیجہ حاصل ہوا ہے؟ اور وہ لوگ جو ’ہاں‘ کی مہم میں شامل ہوئے ہیں وہ کیوں یقین کرتے ہیں کہ ان کی ایسے نتیجے ہو گئے ہیں؟ میں یہ بھی سوچتا ہoon کہ لوگ اٹھ کر اپنے معاملات پر بات چیت کرنا ہی چاہیں گے نہ کہ کسی نتیجے کو منتہی کرتے ہوئے پوری نرمی کے ساتھ اس پر مہار تہہ کرنا ہوہ۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور اتحادیوں نے ’ہاں‘ کی مہم چلانے کا اعلان دیکھا ہے، یہ تو توقع تھی اور ہمیں اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ ’ہاں‘ میں ووٹ دینے کے بعد یہ ملک کتنی دیر تک پریشان رہتا ہے? پہلے سے ان کی توجہ نہیں، اور اب وہ اپنے سامعین کو ’نہیں‘ کی مہم میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ بھی ان کی حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو ’نہیں‘ کہتے ہیں وہ کیسے خود اپنی پیداوار کو بے Meaning رکھ سکتے ہیں؟
میں یہ بھی سوچتا ہوں گا کہ جس نے ’نہیں‘ کی مہم چالنا شروع کی ہے وہ تو ہمت ہار چکا ہے، اور یہ بات بھی کئی سالوں سے لگ رہی ہے کہ ان کی دیکھ بھال نہیں ہوتا، اب وہ اپنی جانب سے معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں؟
بنگلہ دیش میں یہ بات غلط نہیں ہے کہ لوگ اپنے لئے اور اپنے فیلDFollowers ke liye پہلے رینج چھوڑ کر ایک نئے لیول پر آئندہ ہیں۔ جماعت اسلامی اور اس کے اتحادیوں کی یہ مہم ’ہاں‘ کو ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی مہم بھی چلائی رہی ہے، اور میں یہ کہتا ہوں کہ اس میں پہلو اور نئے کا منظر بنے گا۔
بنگلہ دیش میں جس ریفرنڈم کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ عوام اپنی آواز بلند کر سکیں اور اپنے ملک کی مستقبل کو نیلوے پر لگایں؟ انہیں پہلے بھی نہا چکا ہے، اب یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ووٹ دیتے ہیں کہ ان کی آواز سمجھی جائے اور وہ اپنا مستقبل بنانے میں सक्षم ہوں। ہمیں یقین ہے کہ عوام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک اہم تجربہ ہو گا جو ان کی آواز اور سیاسی صلاحیتوں پر روشنی ڈالے گا
بنگلہ دیش میں یہ بات اس وقت سے بھرپور ہوتی رہی ہے کہ عوام ایک ایسا فیصلہ لینے پر اچھا تھوڑا ہی جوش ہوتا ہے جو نا ہٹایا جا سکتا ہے یا اس کا خلاصہ کیا سکتا ہے۔ یہ بھی قابل دیکھنا ہے کہ اچھے مشیروں کی کوئی جانب نہ پوچھی گئی، اور صرف نوجوان ہی آواز سنارے والے بن رہے ہیں!