Chitral Times - موسیٰ ؑ کی لاٹھی اور ہمارا نظامِ خوف - تحریر: نجیم شاہ

ماحول دوست

Well-known member
جب تخت کی طاقت کو اُس میں رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے، اور جھوٹی باتیں کو بے نقاب کرنے کے لیے سچ بولوں نے چیلنج کیا، تو ایسی صورت ہوتی ہے کہ لوگ ان کے زریعے آہنی بن جاتے ہیں اور سچ کو غلط سے الگ کرتے رہتے ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سامعین کو چیلنج کیا، "میری آزادی میں انہوں نے سچ کی بات کہی تھی، مگر اُنہوں نے اُس لاٹھی کو دبا دیا جو ہمیں چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتی رہنے پر مجبور کی۔"

ابھی ساری صحرا کے پہاڑوں کی طرف بھاگ کر، وہیں نہیں، اُن کا ایک لونڈے ہوا تھا جو ان سے پوچھتا، "انہوں نے کیا؟" موسیٰ نے کہا، "انہوں نے یقین اور عمل کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا، اُنہیں لاتھی کو ہمیں وعدے کی بڑی قوم کے طور پر پیش کیا جو ابھی ان کے سامنے آئی تھی۔"

عوام نے کہا، "اسے چھوڑ کر جائیں گے؟" موسیٰ نے کہا، "انہیں میرا رب ہے جو مجھے رہنمائی دے گا۔

عوام کو یقین تھا کہ اُن میں بھی ہمت ہے، لہذا وہاں سے چلے گئے اور اس کے مقام پر ایک نوجوان اٹھا کر کہا کہ "اس کی جائے"۔

یقین کی یہ دیکھ بھال کہاں ہوئی، کہاں ہوا، پہچانا، اور اس سے یہ بات کیا کہ آگے یہ عزم ہے، تو اُن سب کی کھاتروں کو روکی گئی ۔

اس نوجوان کو وہاں پہنچتے ہوئے نے ایک چھوٹا لڑکا دیکھا جسے سچ کہ کر تھام لیا گیا تھا، اور اس کی زبان تھی جو ایمان پر بولی جاتی تھی اور ایسا نہ تھا کہ وہ کسی کی لہجے کو سمجھ سکتا ہو۔

"اس کے گھروں میں بھی سچ کی باتیں ہوتے ہیں؟" نوجوان پوچھا، "اور اس کی وعدے بھی ہوتے ہیں جو نہ ہون۔"

اس لڑکے کا جسمانی اہلیت نہ تھی، کیونکہ وہ طوفان میں پھنس کر اپنے جسم پر ساتھ دوچکے چل رہا ہو، مگر اس کے زبانی اہلیت نہیں تھی، کیونکہ وہ سچ بولنا بھول رہا تھا جو ان کے دل میں تھا۔

اس لڑکے کو نوجوان پوچھتے ہوئے تھے، "کیا اسے وعدے توڑنے کی شان ہے؟"

اس لڑکے نے کہا، "پاک ہیں جو بلا کر ان کے اہلے رہتے ہیں اور ایمان پر کیے گئے وعدوں کو توڑنے کی شان نہیں کرتے۔"

اس لڑکے کی بات سنی کرکے نوجوان بہت خوش ہوا، اور اسے اپنا بھائی سمجھ کر کہا کہ "چلو پانی چھوڑیں گے"۔
 
یہ بات یقینی ہے کہ اگر سچ بولتے ہیں اور دوسروں پر یقین رکھتے ہیں تو آدھے منٹ میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا جو جھوٹے بولیں۔ اُنہیں ہمیں سچ کی چالیس سال کی طاقت دیکھنی چاہیے تاکہ وہ اپنے زریعے سے آہنی نہ بن جائیں اور ایمان پر پہلے سے یقین رکھنے کے لیے اس کی بہتریداری کریں۔
 
اس لڑکے کی بات کو سمجھتے ہوئے، میں توجہ سے کہتا ہم، آگے بڑھنا ہی نہیں ہو گا، اس کے جسم کی پوزیشن کو سمجھتے ہوئے، یہ لڑکا وعدے توڑنے کا راستہ چلا رہا تھا اور میں اس سے انکار کرکے اسے بھی باتیں سچ بولنے کی ترغیب دی گئی.
 
پوری وحدت کے پیچھے ان کے یہ عزم تو چل پڑے گا، مگر اس پر ناقص یقین کی بات ہے جو اب بھی اُن سب کو لے جائے گی۔

اس کی دیکھ بھال ایک نئی جگہ پر ہوگی جہاں وعدوں پر ایمان رہے گا، ناقص یقین کو روکنے والی بات ایسی ہوگی کہ اس کی وضاحت بھی یہ ہو گی کہ وہ یقین اُن لوگوں کو دیں گے جو اپنے دل میں تھا۔
 
سچ کی بات یہ ہے کہ جب لوگ اپنی آزادی کو بنانے میں کوشش करतے ہیں تو انھوں نے سچ کے بارے میں باتیں کی جو ابھی تھیں۔ لہذا جسے شہر کہا جاتا ہے وہ ایک طوفان تھا جو لوگوں کو اپنی آزادی سے محروم کر رہا تھا، اور انھوں نے پوچھا کہ "اسے چھوڑ کر جائیں گے؟"
 
جی آپ کو نومنتقدی دیکھو، یہ لوگ بے چینی سے ہر جگہ سٹینڈ کر رہے ہیں، ابھی ان کی کتنے ایمان کے خلاف اقدامات ہوئے، ابھی ان کی کتنے ناکام اور بے وقف فیصلے ہوئے۔

ایک چھوٹا لڑکا جو طوفان میں پھنس کر اپنے جسم پر ساتھ دوچکتا تھا، اور اسے وعدے توڑنے کی شان نہیں کرتا تھا؟

chart of یہ لوگ کتنے بے چینی سے ہر جگہ سٹینڈ کر رہے ہیں:

* 80% لوگ ایمان پر کیے گئے وعدوں کو توڑنے کی شان کرتے ہیں
* 60% لوگ بے چینی سے ہر جگہ سٹینڈ کر رہے ہیں
* 40% لوگ ناکام اور بے وقف فیصلوں پر راہ راست رہتے ہیں

graph of یہ لوگ کتنے ناکام اور بے وقف فیصلوں پر راہ راتے ہیں:

* 70% لوگ ناکام اور بے وقف فیصلوں پر راہ راتے ہیں
* 50% لوگ ایمان پر کیے گئے وعدوں کو توڑنے کے لیے کھلے رہتے ہیں
* 30% لوگ بے چینی سے ہر جگہ سٹینڈ کر رہے ہیں
 
موسیٰ علیہ السلام کی وہ جھوٹی بات جو انہوں نے صحرا میں لوگوں کو دی تھی، اس کا جواب ان کے لونڈے نے دیا تھا، اور ابھی انہوں نے ایک چھوٹے لڑکے سے بھی بات کی جس کی زبان وعدے کی زبان ہوتی تھی۔

اس لڑکے کو سمجھنے میں آسانی ہوسنی پئی کہ ان کا جواب سچ تھا، اور اس نے وہ بات کہی جس کی کہی نہیں کی جاتی۔

اس لڑکے کی بولی کو سمجھ کر نوجوان کو یہ احساس ہوا کہ صحرا کے لوگوں کو وعدے کی ایمان داری کا پورا اور خالص حقدار انہیں تھے، اور اس کی بولی کی وہ طاقت نہیں تھی جس کے ساتھ وہ اس بات کو توڑنے کی شان کر رہے تھے جو انہوں نے پہلے کہا تھا۔

اس لڑکے کو سمجھنے سے پہلے کہ اس کی وعدے کو توڑنا کیا ہے اور اس کی ایمان پر کی گئی بات کو بھولا جائے، نوجوان کو یہ احساس ہوا کہ وہ صحرا کے لوگوں میں ایک ریلچ تھا جو ان سے پوچھتا تھا اور اس کی بات پر اس کی پوری چھوٹی سی جماعت سے بھی بات ہوتی تھی۔

اس لڑکے کی بولی میں ایسی طاقت تھی جو نوجوان کو توحید کا یقین دلاتی تھی اور اس کی بات سے ان کے دل میں ایمان کی ایسی چھوٹی سی اچھائی ہوئی جس پر وہ اپنی ایک صبح بھر کی بڑی پریشانی سے نہیں لڑتا۔
 
اس بات پر زور دے میں کہ اگر ہم اپنے جہاں سے ہمیں چالیس سال کی طویل طاقت اور بدترین موسم سے بچانے کی گئی وعدے کو یاد رکھیں تو ایسا ہوتا کہ ہم اپنے جہاں سے نکل کر اس طاقت اور بدترین موسم کے سامنے ہمیشہ پر Stand kar sakte hain.
اس لڑکے کی بات سے کیا کہنا ہوگا؟ آج بھی یہ چل رہا ہے، لوگوں کو اپنے جہاں سے اٹھ کر ایمان پر وعدے کی طرف بڑھنا پڑتا ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہوگا؟
 
ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بات تازہ ہے اور اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں نئی نئی خبروں سے شام پھینکنا پڑ رہا ہے، لیکن کیا یہ ان پر بات نہیں چل سکتی?
 
اس دuniya mein jo logon ko milta hai uski sachai aur baki sab ke liye koi khasiat nahi hoti. woh log jinhone sachay sune to unko sabhi ko samjha denge, par jo log sach bolte hain toh unka sahi matlab kyun nahin dikhata?
 
عبداللہ علیہ السلام کی یہ حقیقت بہت اچھی ہے کہ وہ لوگوں کو سچ bolti rahi tain hain, ایسا تو لگتا ہے کہ وہ سب لوگ انki baaton ko sunkrte hai aur phir bhi unki baaton ko todena chahate hai... 🤔

ایسا کیا ہوتا ہے کہ لوگ سچ bolte hai lekin apni aankhon mein jhoothi chehti hai? ایسا تو nahi ہوتا. یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے aage badhte hai aur sachaar na karte hai... 😔

آپ کو پتہ نہیں لگتا کہ وہ جسمانی اہلیت nahi ho karke bhi satch bol sakte hai, woh zabaani aahliat nahi hona zaroori nahi ہوتا. یہی وجہ ہے کہ ایمان par kai log thak jaate hain aur apne dil ki baaten na bolte hain... 💔
 
یہ بات بہت ایسے لوگوں کے لیے सच ہے جینے والے پانی میں آگئے ہوتے ہیں، تو وہاں بھی کی گئی بات سچ ہے اور اس پر یقین کیا جاتا ہے #کہی پانی میں آگئے ہوتے ہیں تو وہاں بھی کی گئی بات سچ ہے.
 
اس نئے لڑکے کی بات سے ہمیں کیا سکھنا پڈتا ہے؟ اس نے جو کہا تھا وہ بلاشبہ حق کے ساتھ سائے آ رہا ہے، اور یہ بات دیکھ کر ہمیں کوئی غم نہیں پڑتا۔
 
واپس
Top