دوبڑے استعفے آگئے

سوچوار

Well-known member
امریکی صدر کے استعفیٰ کی حقیقی وجوہات

ایک ایسے معاملے میں جس میں بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے، جو اس وقت تک رہا جائے گا جتنا کہ وہ محض استعفیٰ دیتے جائیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈاکیومنٹری میں ایڈیٹنگ تنازع نے برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور سی ای او ڈیبورا ٰن سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

بھارتیوں نے بھی اس معاملے میں اپنی نصف رائے کا اظہار کیا ہے۔

ہر شہری کو اپنے ملک کی حقیقی تاریخ جانتا ہونا چاہیے، یہ سچائی ایسے اداروں سے ملتی ہے جو اس کے لیے استحکام بنتی ہے۔ لیکن بی بی سی نے اپنی جان بھی جسمانی ہار چکی ہے۔ وہ ایڈیٹنگ تنازع سے بھی گزرنا کہا جاتا تھا، لیکن یہ اس سچائی کو آگے بڑھانے کی بجائے اسے ہٹایا ہے۔

اس معاملے میں ایک نئی بات بھی سامنے آئی ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی سیاسی غیر جانبداری کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ٹرمپ کی تقریر میں ایسی ایڈٹنگ کی گئی تھی جو اس طرح کی سچائی کو محسوس ہوتی تھی جیسے وہ اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر مارچ کر رہے ہیں اور ’’شدید مزاحمت‘‘ کی ترغیب دے رہے ہیں۔

لیکن ایسا بھی نہیں تھا، جس سے وہ اپنے حامیوں کو مچھل کے پانی میں نہ لٹا دیتے ہیں۔ وہ محض ایک Political speech کے طور پر اسے پیش کر رہے تھے اور کسی نے اسے یہ سمجھنا بھی نہیں تھا۔

اس معاملے میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی رپورٹنگ میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی بجائے اسے ہٹایا تھا۔ وہ فلسطینیوں کی طرف تعصب دکھائی کرے گی اور ٹرانس ایشوز اور ٹرمپ تقریر ایڈیٹنگ کے معاملات پر بھی انہیں زیادہ دباؤ میں رہنے کی وجہ سے اسے بھی ہٹا دیا تھا۔

اس معاملے کے بعد بی بی سی نے ادارہ شدید دباؤ میں رہا ہے، جس کے بعد یہ دیکھنا ہی بہت مشکل تھا کہ وہ اس معاملے سے گزرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس معاملے میں ایک بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے اور وہ اس سے بھگنا چاہیے۔
 
جب انڈیا میں بھی اس معاملے پر بات کر رہے ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے۔ وہ انڈیا میں اپنے شعبے سے دباؤ میں رہ رہا ہے اور اس معاملے سے نکل کر بھی ان کے استعفیٰ پر پورا دباؤ ہے۔

جب اس معاملے کو لیندے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے اور وہ اس سے بھگنا چاہیے۔

اس معاملے میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی رپورٹنگ میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی بجائے اسے ہٹایا تھا۔ وہ فلسطینیوں کی طرف تعصب دکھائی کرے گی اور ٹرانس ایشوز اور ٹرمپ تقریر ایڈیٹنگ کے معاملات پر بھی انہیں زیادہ دباؤ میں رہنے کی وجہ سے اسے بھی ہٹا دیا تھا۔

اس معاملے کے بعد بی بی سی نے ادارہ شدید دباؤ میں رہا ہے، جس کے بعد یہ دیکھنا ہی بہت مشکل تھا کہ وہ اس معاملے سے گزرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس پر کچھ بات کروں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بی بی سی کو اپنی رپورٹنگ میں زیادہ دکھتی لینا چاہیے اور اس معاملے سے بھگنا چاہیے۔

اج نائن پر یہ رپورٹ پڑھ کر محسوس ہوا کہ بی بی سی کو اس معاملے سے بھگنا چاہیے تاکہ وہ اپنی جان بھی کھو سکے۔
 
بی بی سی کو ڈیری دباؤ میں رکھنا نہیں چاہئے، لیکن یہ بات اچھی تھی کہ وہ اپنی سیاسی غیر جانبداری کو بھی سچائی کی طرف انقاض دیتے۔ اب وہ محض استعفیٰ دیتے ہوئے اس معاملے میں گزرنا چاہئیں، جس سے یہ بات صاف ہو سکے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میںPolitical غیر جانبداری کی طرف اشارہ کرنے پر مجبور تھے اور اسے جاری رکھنا چاہئیے۔
 
بی بی سی کو ایڈیٹنگ تنازع سے پتہ لگنے تک پوری جانت نہیں تھی کہ وہ اپنی سچائی کی حارتی ہیں یا کہیں اور کے لیے کام کر رہی ہیں
 
اس معاملے میں سب سے زیادہ پیار کیا جائے گا اگر یہ بات سامنے آئے کہ بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے تو وہ اس سے بھگنا چاہیے
 
ایسا لگتا ہے کی یہ معاملہ ایک نیا سرچ مارکر بن گیا ہے، جس سے پوری دنیا کا دیکھ بھال ہو گya ہے۔ ٹیم ٹرامپ نے اپنی ڈاکیومنٹری میں ایڈیٹنگ تنازع سے استعفیٰ دیا ہے اور وہ ابھی بھی اس معاملے پر چل رہے ہیں، لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بی بی سی نے اپنی جان بھی جسمانی ہار چکی ہے۔
 
امریکی صدر کی استعفیٰ کے حوالے میں سب کو یہ بات تھی کہ ان میں اپنے منصوبوں پر بھی دباؤ پڑتا جائے گا۔ اور اب اس معاملے کی وجہ سے بی بی سی نے اپنی جان بھی ہار چکی ہے، یہ تو بالکل صحیح نہیں ہے. وہ اس میڈیا گروپ کو دیکھ رہا تھا جس کی حقیقت کو اب وہ کبھار کھونے جادو کا استعمال کر رہے ہیں، وہ ایسی نہیں چاہتے جیسے وہ اپنے ملک کی حقیقت کو بھی جانتے.
 
امریکی صدر ٹرمپ کے استعفیٰ سے لے کر بی بی سی تک پھیلتے معاملات میں ایک بات یقینی ہو جاتی ہے، وہ سب کی اسی چیز کو دیکھ رہے ہیں - سیاسی غیر جانبداری اور سچائی کی کمی۔ بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے اور وہ اس سے بھگنا چاہیے، لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابھی تک انہوں نے اس معاملے میں کیا کامیاب کیا? 🤔
 
یہ معاملہ ہمیں ایک حقیقت کے سامنے پہنچاتا ہے کہ جب لوگ اپنی جان بھی نہ دیتے تو وہ محض ایسے استحکام کو بناتے ہیں جو ان کے لیے ایسی ہیں جن سے وہ معاشرے کے لئے کامیاب رہتے ہیں۔

لیکن، جب وہ معاشرے کی حقیقی تاریخ کو محسوس نہیں کر پاتے تو وہ اسی استحکام کے لئے دھکیلتے ہیں جو اسے ہٹا دیتے ہیں اور اس کے بجائے کسی نہ کسی معاملے میں اپنا عزم ظاہر کرتے ہیں۔

اس لئے، جب بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے تو یہ ایک حقیقت ہے جو وہ اس سے نہیں ہٹا سکتی۔ لیکن، وہ اس معاملے میں ایک ایسا تعزیت کھانے کی کوشش کر رہی ہے جسے وہ اپنی جان بھی نہیں دے سکتی۔
 
بی بی سی کو اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ معاملہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ وہ اپنی سچائی کو برقرار رکھنا چاہیں گے اور اس معاملے میں اپنی انتظامات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
 
امریکی صدر کے استعفیٰ کا معاملہ تو اب تک رہے گا۔ اس معاملے میں بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہو گی، اور یہ سچائی ایسی ہے جو انہیں محض استعفیٰ دیتے ہوئے رکھے گی۔

اس معاملے میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی سیاسی غیر جانبداری کی طرف اشارہ کیا تھا اور اب وہ اس کے ساتھ دوچکن کر رہی ہیں۔

اس معاملے میں ایک بات بھی سامنے آئی ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی نے اپنی رپورٹنگ میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی بجائے اسے ہٹایا تھا۔ وہ فلسطینیوں کی طرف تعصب دکھائی کرے گی اور ٹرانس ایشوز اور ٹرمپ تقریر ایڈیٹنگ کے معاملات پر بھی انہیں زیادہ دباؤ میں رہنے کی وجہ سے اسے ہٹا دیا تھا۔

اس معاملے میں بی بی سی کو ایک بات یاد رکھنی چاہئیے، جس کے لیے وہ اپنی جان بھی نہیں لے سکتی۔

(😂)
 
امریکہ کی سیاسی دنیا ایسے معاملات سے بھرپور ہوتی ہے جس سے لوگ حیران رہتے ہیں اور ان کا منظر نظر آتا ہے كہ جیسے دنیا ایک گریویٹی پر چلی جا رہی ہے، اس سے ایسے معاملات نکلتے ہیں جن سے لوگ ہر وقت اچھا لگاتے ہیں اور ان کے حوالے سے کئی بار کہتے رہتے ہیں کہ اس نے یہ کیا، لیکن جب اس معاملے میں بی بی سی نے اپنی جان بھی کھوئی ہے تو اس سے ان کی طرف سے ایسا بھی محور چلنا پڑا ہے جو اس معاملے میں یقیناً نہیں ہوگا
 
اس معاملے میں میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ بی بی سی کی جان ہار چکی ہے یا وہ اپنی جان دے رہی ہے؟ اس معاملے میں میری بات ایسے ہے جیسا کہ کسی نے بھی نہیں سنا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ بی بی سی کی جان ہار چکی ہے اور وہ اپنی جان دے رہی ہے۔ لیکن اس سے باہر میں پھر سے اس کی سرگرمیوں کو بھی دیکھنا ہو گا، جو کہ وہ اپنی جان کھونے کے بعد کئے گی۔

اس معاملے میں بی بی سی کو ایک بات یاد رکھنی چاہئیے کہ وہ اپنی رپورٹنگ میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھی ہو۔
 
بھارتیوں کو یہ بات جانتا ہوگی کہ بی بی سی نے اپنی جان جسمانی ہار چکی ہے، کیونکہ وہ اپنے استقام کے لیے ایسی سچائی کو ہٹا رہی ہے جو اس کے لیے ضروری تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر میں ایڈیٹنگ تنازع نے بی بی سی کو ایک نئی بات پیش کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو اس کے لیے تھوڑا مुशکل بھی نہیں تھا۔ اس معاملے کی وضاحت کے لیے بی بی سی کو اپنی جان کھوننے کے لیے مجبور کرنا بھی انہوں نے پہلی بار کیا ہے۔

اس معاملے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی اداروں کو اپنے ملک کی حقیقی تاریخ جانتے ہونے، اس کی رپورٹنگ میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بی بی سی نے اپنی جان بھی جسمانی ہار چکی ہے اور اس کا استقام کیسے ممکن تھا، یہ بات ہمیں یाद رکھنی پڑے گی۔
 
🤔 یہ بات پھولا چکی ہے کہ امریکی صدر کا استعفیٰ ایک واضح سائنال تھا کہ اس خطے میں ایڈیٹنگ کی سیاسی غیر جانبداری پر یقین رکھنا نہیں چاہیے۔

جب ہم اپنی ملکی تاریخ کو جانتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے اداروں سے استحکام حاصل ہوتا ہے جو معیشت، سیاست، اور سماج میں رہتے ہیں۔ لیکن بی بی سی کو انہیں جاننا چاہئے کہ اس خطے میں سیاسی غیر جانبداری کی طرف اشارہ کرنے سے بھی نچٹنا ہو سکتا ہے، جس سے وہ اپنی سمجھ و اقدار کو نہیں برقرار رکھ سکتا ہیں۔

جب ایڈیٹنگ سیکشن میں تبدیلی کی بات آتی ہے تو اس پر فریپین کے دباؤ کا ذکر نہیں کیا جاتا، لیکن وہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان سیکشن میں ایڈیٹنگ کی سیاسی غیر جانبداری بھی شامل ہو سکتی ہے۔
 
بی بی سی کو دیکھو، اب وہ پہلی بار ایڈیٹنگ تنازع کی وجہ سے اپنی جان کھو رہی ہے… اس لیے نہیں کہ وہ سچائی کو دکھائی دیتے رہنے سے بھگ جاتے.
 
بی بی سی کو اپنے استحکام کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، مگر اس سے ان کے لیے واضح بات یہ ہوتی ہے کہ وہ محض اپنے استحکام کو برقرار رکھنا تاکہ اور بھی لوگ ان کی جان جسمانی ہار کرنے پر مجبور نہ ہو۔
 
واپس
Top