جے ای یوٰئی آئین کی اصل روح کو بحال کرنے کا مقصد، جس نے 26ویں ترمیم میں تقریباً 56 شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی تھی، اب واپس لے لی گئی ہے۔ ان چارٹر کے دوران تقریباً 56 شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئی تھی جس کے نتیجے میں آئین کی سچائی کو نقصان پہنچا تھا۔
حافظ حمداللہ نے کہا، 26ویں ترمیم کے دوران تقریباً 56 شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئی تھی۔ تاہم جب اس کا مقابلہ Maulانا فضل الرحمن نے کیا تو سارے متنازع، غیر آئینی اور بے بنیاد ترامیم کو پارلیمانی اتفاقِ رائے سے نکال دیا گیا تھا لیکن اب ایک سال بعد حکومت انہی شقوں کو 27ویں ترمیم کی صورت میں دوبارہ آئین کا حصہ بنا رہی ہے، جسے انہوں نے حکومتی بددیانتی، دباؤ اور آئین سے بے وفائی قرار دیا۔
27ویں ترمیم نے ملک میں دو الگ قوانین کی بنیاد رکھ دی ہے: طاقتور کے لیے مستقل استثنیٰ اور کمزور کے لیے سخت ترین سزائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترمیم کے ذریعے ’’ڈی فیکٹو طاقتوں‘‘ کو باقاعدہ آئینی تحفظ دیا گیا ہے، جو تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے ہی بیانیے سے انحراف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمن سے جو وعدے کیے تھے، وہ توڑے گئے اور وہی ترامیم جنہیں پہلے اتفاقِ رائے سے ہٹایا گیا تھا، اب دوبارہ آئین میں شامل کر دی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف سیاسی دھوکہ دہی نہیں بلکہ آئین خود سے غداری ہے۔
حافظ حمداللہ کو اس ترمیم پر شدید ناراضگی ہے جس کا مقابلہ Maulانا فضل الرحمن نے کیا تھا۔ انہوں نے حکومت کے اس اقدار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''امانت میں خیانت‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رکن نے لاکھوں عوامی ووٹوں اور پارٹی ڈسپلن کے خلاف عمل کیا، جس پر جے یو آئی (ف) نے کارروائی شروع کر دی ہے۔
اس وقت کو پھنسا ہوا ہے جب ایسے لوگ ڈیپرسن میں سونے کے لیے ہار چुकے ہیں. یہاں کی پارلیمنٹ نے اپنی خالی وعدوں کے ساتھ ایک نئی ترمیم پر دستخط کیے ہیں، جو ایسے معاملوں کو بلاavishwaas bana دیتی ہے جس پر پورے ملک میں جتنی بھی بحث ہوئی تھی اسے اب توپارچ کر دیا گیا۔ یہ سچائی کی آواز ہی نہیں بلکہ دھوکہ دہی کی رات ہے
اس حکومت کی بھرپور بیوقوفی کا تعلق صرف اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو ناقابلِ توثیق بنانے کے لیے عوام کے ایجنڈے سے الگ رہتی ہے اور ڈھیلے ڈھیرے سے ملک کی آئین کو نقصان پہنچاتے جائیں گے! وہ ناقابلِ یقین اس بات پر بھی دھارمست تھے کہ عوام کے انتخاب کو نظر انداز کرتی ہے اور پارٹی ڈسپلن کی چال آواز سے آگاہ رہتی ہے!
بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ ہر ایک کی نیند سے بڑھ اٹھنے والے ہیں، جس پر پوری دنیا کا دکھلا بھر رہا ہے! یہ 27ویں ترمیم ہمیں ایک الگ ہی دنیا میں لانے کی طرف بھی لے جائی گے اور آئین کے ساتھ بدیہائی وادھا کر رہی ہے!
اس وقت کو پچھا نہیں جانا چاہیے بلکہ آئین کی بڑی سچائی کی طرف ایسے ترامیم کو لانا جو آئین کے لئے دوسرے لائے ہیں وہ تو صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں اس کی بنیاد میں نہیں بنایا جانی چاہیے
یہاں سے بھی دیکھتا ہوں کہ آئین کی اصل روح کو بحال کرنے کی کوشش میں اب پھر ایسے ترامیم لائے گئے ہیں جو اساں نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے اپنی بددیانتی اور دباؤ کا استعمال کر رکھا ہے۔ اس بات کو بھی پتہ چلتا ہے کہ Maulana Fazlur Rehman کا مقابلہ 26ویں ترمیم سے ایسا ہی رہا جیسا کہ یہ سب لوگ پتہ لگاتے تھے۔ اب ان ساروں ترامیم کو دوبارہ آئین میں شامل کر دیا گیا ہے جو اساں نقصان پہنچاتی ہیں، یہ تو بہت گھمندہ ہے۔
اکثر آپ نہیں سوچتے کہ اِسی طرح کا تہzeeب بھی ہو گا جس سے 26ویں ترمیم کے بعد ایسا ہوا تھا۔ یہ توئنٹس پر لگتا ہے کہ آپ اس کے بہت خوفناک تصور نہیں کرتے اور ان کھوٹوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔
یہ بات حتمی ہے کہ حکومت نے آئین کو ایک سال میں دو بار تبدیل کر دیا ہے، جس سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ جو آرائے داری تھیں وہ اب دوبارہ شامل کی گئیں، جس کے نتیجے میں آئین کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ کامیابی نہیں ہے بلکہ اس پر غداری ہے۔
اس رونق کی بڑی بات ہے کہ حکومت واپس لے گئی ہے اور اب اسے دوبارہ پارلیمانی آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے جس نے Maulana Fazlur Rehman کی حکومت سے 56 شقوں میں بدلائی تھی۔ یہاں پر بات ہے اس معاملے کے نیوڈیل، کیونکہ اب وہ جیسے ہی حکومت نے ان شقوں کو دوبارہ آئین میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، ملک پر گہری تفرقے پیدا ہوگئے ہیں۔
اس کی کیا چیت? ان 56 شقوں میں سے ایک بھی واپس لینا، جس نے پہلے سے آئین کی سچائی کو نقصان پہنچایا تھا? یہ دیکھنا کہ انہی شقوں کو دوبارہ آئین میں شامل کر دیا جائے، جس کا مقصد آئین کی سچائی کو بحال کرنا ہے؟ یہ تو توہین دھندہی ہے!
یہ بھی دیکھیں گی کیسے انہی شقوں کو فوری طور پر دوبارہ اس قانون میں شامل کر لیا جائے گا جس نے وہ 56 شقوں سے نقصان پہنچایا تھا؟ کیا انہی شقوں کو دوبارہ آئین میں شامل کرنا اس بات کی اجازت دے گا کہ اس نے 26ویں ترمیم سے نقصان پہنچایا تھا?
یہ دیکھا جانا ہوتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، آئین میں بدلाव کی طرف سے ایک بڑا چکر چلا رہا ہے اور لوگ یہ دیکھنے کے لئے آتے ہیں کہ آئین کس طرح تبدیل ہوتا ہے۔ حال ہی میں 26ویں ترمیم سے تقریباً 56 شقوں میں تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئی تھی لیکن اب واپس لے لی گئی ہیں اور اب یہ ان 56 شقوں کو دوبارہ ملک کا حصہ بنا رہی ہے جس سے آپ کے دھن سے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اس نئے آئین میں دوسرا ایک الگ قانون جو بنایا گیا ہے وہ ہے کہ طاقتور اور کمزور دونوں کی ایسی صورتحال بنائی گئی ہے جس سے ان کے درمیان دوسری نسل کا خوف بڑھتا ہے۔
یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ جو لوگ کہتے تھے کہ وہ آئین کو ایک طرف رکھ کر دوسری طرف چلوں، اب اسی طرح کا کام ہو رہا ہے۔ 27ویں ترمیم کی واضح تجاویز جو Maulana Fazlur Rehman نے پیش کی تھیں، اب ایسے ہی آئین میں شامل ہو رہی ہیں جیسے انہوں نے کھٹ کرکھٹاً کہا تھا۔ یہ آئین کی سچائی کو نقصان پہنچاتا ہوا چلا جا رہا ہے۔
جن لوگوں نے آئین میں ایسی تبدیلیاں پیش کی تھیں انہوں نے خود کو بھرے دباؤ میں چھونے پر مجبور کیا تھا، اب انہیں آئین سے ایسی بددیانتی کا شکار ہونا پڑ رہا ہے جس سے ملک کی آئینی سڑک پر پہلی بار گھنٹوں میں خون اٹھنا پڑتا ہے۔
جب تک ان لوگوں کے جرم کو دھونے والی حکومت، لوگ اپنے سیاسی معاملات سے نکل کر یہاں آتی رہیں، تو یہ پورا معاملہ اس قدر عظیم ہوتا ہے کہ ایک سال بعد اسی طرح کی تبدیلیاں دوسرے سال ایسے ہی شامل کر لیں گی۔
ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ جب تک آئین کو ایک طرف رکھا جائے اور دوسری طرف اس کی بددیانتی کی طرف ہر طرح کی نوجوانی سے لے کر بڑی تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے روک دیا جائے تو صرف آئین ہی نہیں بلکہ ملک کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
اس 27ویں ترمیم کی وجہ سے میں بہت خوش نہیں ہوں گا ۔ یہ صرف ایک طاقتور کے لیے مستقل استثنیٰ اور کمزور کے لیے سخت ترین سزائیں رکھنے کی جگہ میں انیسویں ترمیم کی وجہ سے 26ویں ترمیم کو واپس لینے والی بڑی بڑی بددیانتی ہو گی۔ اس نے آئین کا ایک ایسا حصہ شامل کر دیا ہے جس نے ملک کے لیے بھی خراب ہوا ہو گا ، پھر یہ کچھ لوگ کہن گے کہ یہ اس کی فیکٹری بنایا گیا ہے جو ملک کو آگ لگا دے گی؟
اس 27ویں ترمیم سے ملک میں ایک پھر توڑپھول آ گئی ہے! یہاں سے حکومت کو کہیں تک پھیلنے کی مجرت کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں 26ویں ترمیم کو ہٹایا گیا تھا اور اب واپس لے لی گئی ہے! یہ تو ایک بدقسمتی ہے کہ ملک نے اس طرح کی کوششوں سے کھو دیا ہے جو 26ویں ترمیم کے دوران پیش کی گئی تھیں اور اب واپس لے لی گئی ہیں!
انہوں نے اس پریشانی کو بھی جگا دیا ہے جب تک کہ حکومت کو نیند آ سکے گی اور عوام کو ان پر ڈٹنی۔ یہ ایک دھوکہ دہی ہی نہیں بلکہ واضح طور پر خوفناک ہے! یہ تو ایک بدقسمتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے موقف تبدیل کر دیا ہے جو انہوں نے پہلے اتار دیا تھا! یہ تو ایک خطرناک دھوکہ دہی ہے!
ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگوں نے پھر سے ایک بڑی اہمیت کی بات کو تباہ کر دی ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی بددیانتی ہے، حکومت نے آئین کا تعظیم کیا ہے اور عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں یقینی بنانا مشکل ہوتا ہے، جب تک کہ حکومت کو اپنے رائے کو آگے بڑھانے کے لیے عوام سے بیوقوفی کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت کی حکومت اپنی ترمیم کی رہنمائی میں معاملات کو ایک ہی پہلو سے دیکھ رہی ہے، وہ یہ کہی گئی ہے کہ جس نے ترمیم کی تجاویز پیش کیں اس کو قبول کرلیا جائے اور انہوں نے اپنی رہنمائی میں بددیانتی کے عنوان سے اسے چھپایا ہے... :-(