غزہ فورس میں کن ممالک کی شمولیت کی یہاں بات کر رہی ہے جو ابھی تک کچھ نہیں سمجھائی جا سکتی ہے۔ واضح ہو گیا ہے کہ عرب یا دیگر ممالک اپنی فوجی کارروائیاں شروع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ حماس کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا گیا ہے جبکہ اسرائیل نے یہ فورس کے معاملے میں بھی حیرت کا اظہار کیا ہے۔
اس وقت امریکا نے اپنے فوجی کی غزہ میں شمولیت سے انکار کر دیا ہے، تاہم انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر اور ترکی جیسے متعدد ممالک کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
ایس رپورٹ کی جارہی ہے کہ اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی سیکیورٹی پر آزادہ ہونے کا اظہار کیا ہے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی فورسز کے معاملے میں فیصلہ اسرائیل ہی کرے گا۔
اس رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے بتایا ہے کہ یہ پالیسی امریکا کے لیے بھی قابل قبول ہے، جیسا کہ امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں واضح کیا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیاں دو سال سے جاری ہوئی ہیں اور اس علاقے کے بیشتر راستوں پر بھی اس کا کنٹرول برقرار ہے۔
اس رپورٹ کی جارہی ہے کہ نیتن یاہو کو پچھلے ہفتے ترکی کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض تھا، جس کے بعد اسرائیل اور ترکی کے تعلقات دوبارہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بتایا ہے کہ غزہ فورس میں صرف وہ ممالک شامل کیے جائیں جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس معاملے پر اقوام متحدہ کی قرارداد یا بین الاقوامی معاہدے کے امکانات پر غور کر رہا ہے، جبکہ قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
یہ واضح ہو گیا ہے کہ آسٹریلیا اور برطانیہ، جو غزہ فورس میں شامل ہونے پر معانقت ہوئی، ابھی تک اپنی بطور کی واضح نہیں کی ہو سکتی. لاکھوں لوگوں کے لیے آسٹریلیا اور برطانیہ نے غزہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، جبکہ امریکا نے اپنے فوجی کو بھی اس معاملے سے دور رکھ دیا.
اس گزہ فورس میں آنے والی صورتحال کی بات کرتے ہوئے، یہ سمجھنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ عرب ممالک بھی اس میں شامل نہیں ہونگی، اور حماس کو ہاتھ ڈالنے سے انکار کر دیا جا چuka ہے۔ پوری صورتحال ایسے ہوئی ہے جیسے کہ اس میں کسی بھی ممالک کی شمولیت نہیں ہونی چاہئیے، خاص طور پر اسرائیل کو یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ اسی صورتحال میں سب سے زیادہ بھرپور رہتا ہو گا۔
اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے، میرا خیال ہے کہ غزہ فورس میں مختلف ممالک کی شمولیت کی وضاحت اتنا آسان نہیں ہو سکتا۔ اس وقت یہ بات بھی ظاہر ہو گئی ہے کہ عرب یا دیگر ممالک اپنی فوجی کارروائیوں کو شروع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ حماس کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ اسرائیل کی سیکیورٹی پر آزادہ ہونے کا اظہار نیتن یاہو نے کیا ہے، یہ کہ اس لیے ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی فورسز کے معاملے میں فیصلہ اسرائیل ہی کرے گا، بھرپور حقیقت ہے۔
اس سلسلے میں، یہ بات ضروری ہے کہ अमریکی حکام کی اس پالیسی کو کیسے سمجھایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل کو شام اور فلسطین پر فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے، اور اس سے یہ کہ ان کی پالیسی کیسے نتیجے دے رہی ہے۔
اس فورس میں شمولیت کی بات چیت جاری ہو رہی ہے اور پہلے تو امریکا کے لیے ایک بڑی ناکامی کا مظاہرہ ہوا تھا، اب یہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی اپنے حیرت کے اظہار کر رہا ہے، اس سے پتا چalta ہے کہ ان تمام ممالک کی طرف سے جو یہ فورس میں شمولیت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ ابھی تک کچھ نہیں سمجھایा جا سکا تھا
اس رپورٹ سے پتا چalta ہے کہ واضح طور پر عرب یا دیگر ممالک اپنی فوجی کارروائیاں شروع کرنے پر آمادہ نہیں، جبکہ اسرائیل کی جانب سے یہ خیال ہے کہ بین الاقوامی فورسز کا فیصلہ اسرائیل ہی کرے گا، اس لیے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات دوبارہ کشیدہ ہو گئے ہیں
امریکا کی جانب سے غزہ میں فوجی شمولیت سے انکار کرنا ایک اہم بات ہے، اور اب یہی نہیں بلکہ Qatar اور Turkey کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اور امریکا اقوام متحدہ کی قرارداد یا بین الاقوامی معاہدے پر غور کر رہا ہے
اس صورتحال کو دیکھتے ہیں تو انصاف کے حصول میں ایک اہم کردار کھیل رہی ہے، اور اب یہی نہیڰ بلکہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا تعینات ایک بے آمانت عمل ہے
یہ رپورٹ سے پتا چalta ہے کہ نیتن یاہو کو ٹرک کے ممکنہ شمولیت پر اعتراض تھا، اور اس صورتحال کی وجہ سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات دوبارہ کشید ہوئے ہیں
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بتایا ہے کہ غزہ فورس میں صرف وہ ممالک شامل کیے جائیں جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو، اور اب یہی نہیں بلکہ قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے
اس رپورٹ کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی فورسز کا فیصلہ کیسے ہو گا، اور اس صورتحال کو دیکھتے ہیں تو پتہ چalta ہے کہ واشنگٹن اس معاملے پر اقوام متحدہ کی قرارداد یا بین الاقوامی معاہدے پر غور کر رہا ہے
میں یہ سوچتا ہوں کہ ان نئی پالیسیز کی واضح طور پر ضرورت ہے، خاص طور پر امریکا کی اور اسرائیل کی جانب سے، جو ابھی تک غزہ میں اسرائیل کے حوالے سے بالکل چلے آ رہی ہے۔
ایک دوسرا یہ بات یہ ہے کہ کوئی بھی ملک یا ادارہ جس میں اسرائیل کی اعتماد نہیں ہو، وہ اپنی فوجی کارروائیوں میں شمولیت سے انکار کر دے گی، جیسا کہ اب امریکا بھی کر رہا ہے۔
اس وقت غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، اور اب ایسا کہہ رہے ہیں کہ بین الاقوامی فورسز سے مشورہ کرو۔
اس پر بات چیت جاری ہے یا اس پر کھلے دل کی بات کرنے کی ضرورت ہے؟
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ یہ فورس میں کون سے ممالک شامل ہوں گے، اس پر کسی بھی ملک کا اعتماد کیسے بنایا جائے گا؟ اسرائیل کی اتھارٹی پر ایسی بات کہنا غلط تھا، یہ پالیسی امریکی حکام کو ہی تجویز کر رہی ہے کیونکہ واشنگٹن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی حقیقی مقصد جس سے اس نے غائب ہو کر رہا ہے، یہ سچائی کب تک پھیلائی جا سکتی ہے؟ یہ پچھلے دو سالوں سے چلی آ رہی ہے اور اب بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں نظر آ رہا، بالکل جھٹکے کی جگہ میں سے بھاگنا ہی پچتا تھا۔
چل پے ان دوسرے ممالک جنے بھی آئیں غزہ میں فوجی کارروائیوں میں شامل ہون، تو یہ سچ ہے کہ وہ سب ایسے افراد ہیں جو اپنے ممالک کی فوریٹ ہونے پر غبreta بھر جاتے ہیں. امریکا نے انکار کر دیا تو یہ ایک بات ہے، لیکن اب اگر اسرائیل کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق دیکھنا چاہتا ہے تو وہ سب کچھ ٹیکنیکی باتوں پر پڑھتے ہیں.
اس کے باوجود غزہ فورس میں ممالک کی شمولیت پر کوئی واضح جواب نہیں ملتا ہے، یہ ایک بھرپور معاملہ ہے جس میں کچھ واضح نہیں سمجھائی جا سکتی۔
امریکا کی غزہ میں فوجی شمولیت سے انکار کرنا ایک اچھی طرف ہے، حالانکہ اس وقت بھی کئی ممالک جیسے امارات، مصر اور قطر اس معاملے پر بات چیت کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی سیکیورٹی پر اعلان کرنا ایک خطرناک حوالہ ہے جو بین الاقوامی فورسز کے معاملے میں اسرائیل کو فیصلہ کرنے کی آزادی دے رہا ہے، لہذا اس میں ایک بھرپور تناؤ پیدا ہوگا۔
ابھی دو سال سے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی جاری ہے اور اس علاقے کے بیشتر راستوں پر بھی اسرائیل کا کنٹرول برقرار ہے، یہ ایک بھرپور معاملہ ہے جو حل نہیں ملتا ہے۔
ایسے میں یہ سوچنا ہی مشکل ہے کہ کون سی ممالک اسرائیل کی غرض کو پورا کرنے پر تھوڑا آمادہ ہیں، جبکہ حماس اور اس کی تعاون کرنے والے دیگر ممالک کے پاس یہ توہان بھرپور آمادہ ہو گیا ہے۔
اسرائیل کو کہا جاتا رہا ہے کہ وہ فوری طور پر فیصلہ کر لیتا ہے اور ہر کوئی اس کی پیش قدمی کو قبول کرتا ہے، لیکن اب یہ سوچنا مشکل ہو گیا ہے کہ اسرائیل کس پر اعتماد کرتا ہے؟
اس رپورٹ سے زیادہ نہیں سمجھا جا سکتا، اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اسرائیل کو اس معاملے میں صرف اپنی نظر آئے کیوں بنایا جاتا ہے؟
اس رپورٹ سے انفرادی طور پر کچھ نہیں سمجھا جا سکتا، خاص طور پر واشنگٹن کی جانب سے امریکا کی اس فیصلہ پر اعتماد ہونا ہے کہ ان کا کوئی کردار نہیں ہوگا غزہ فورس میں۔