لاہور میں فضائی آلودگی برقرار، شہر میں اسموگ کے باعث اسکولوں کے اوقات کار تبدیل

لاہور میں فضائی آلودگی برقرار رہی ہے، جس کے باعث شہر کے اسکولوں کو اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑا ہے۔ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے سوشل میڈیا پر ایسے پیغام کی واجہ داری کے لیے دی، جس سے اسکولز کو صبح 8 بج کر 45 منٹ پر کھلنا اور ڈیڑھ بجے چھٹی ملنے کی announcement دی گئی ہے۔

اسکولوں کی یہ تبدیلی نجی ٹی وی نے بھی اعلان کرائی، جس کے مطابق صوبہ پنجاب میں سرکاری اسکولوں کے اوقات تبدیل ہوئے ہیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر برائے ماحولیات مریم اورنگزیب نے بھی کہا ہے کہ اسموگ گن استعمال سے فضائی آلودگی میں کمی لگ رہی ہے، لیکن جیسا کہ رواں سال صورتحال گزشتہ سال جیسی نہیں ہے۔

انہوں نے اسموگ کے پیش نظر صوبہ بھر میں سرکاری اسکولوں کے اوقات تبدیل کر دیے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ صوبہ بھر میں 41 ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے جا چکے ہیں، جبکہ مزید مانیٹرنگ یونٹس اور اے آئی بیسڈ فورکاسٹنگ سسٹم کو فعال بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ فضائی آلودگی کی بروقت پیش گوئی اور کنٹرول ممکن ہو رہا ہے، جس سے شہری اور صحت مند زندگی کو مزید برقرار کیا جا سکتا ہے۔
 
آج ہمیں دیکھنے پڑ رہی ہے کہ لاہور میں فضائی آلودگی کی समसہ بھی برقرار رہی ہے اور اس کے باعث شہر کے اسکولوں کو اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑا ہے 🤔

اب جب وزیر تعلیم نے ایسے پیغام دیے ہیں تاکہ شہر کے اسکولوں کو صبح 8 بج کر 45 منٹ پر کھلنا اور ڈیڑھ بجے چھٹی ملنے کی announcement دی گئی ہے تو یہ بہت سا کچھ ہو رہا ہے

لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اسکولوں کو صرف اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑتا ہو، مگر آلودگی کی صورتحال میں کمی لگ رہی ہے؟ اور جیسا کہ رواں سال صورتحال گزشتہ سال جیسی نہیں ہے? یہ تو ایک بڑا سوال ہے

انہوں نے کہا ہے کہ ایسماگ گن استعمال سے فضائی آلودگی میں کمی لگ رہی ہے، لیکن میرے خیال میں یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا اسموگ کے استعمال کی وجہ سے آلودگی میں کمی ہوئی ہے یا یہ صرف ایک جسمانی بات ہے?

اب جب پنجاب کی سینئر وزیر برائے ماحولیات نے کہا ہے کہ صوبہ بھر میں سرکاری اسکولوں کے اوقات تبدیل کر دیے گئے ہیں اور صوبہ بھر میں 41 ایئر کوالٹی مانیٹرز نصب کیے جا چکے ہیں تو یہ بھی ایک اچھا کارن ہے

لیکن ابھی بھی انہوں نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی کی بروقت پیش گوئی اور کنٹرول ممکن ہو رہا ہے، جس سے شہری اور صحت مند زندگی کو مزید برقرار کیا جا سکتا ہے یہ تو ایک بڑا فائڈ ہو گا
 
سکولوں کو بھی 8 بج کر 45 منٹ پر کھلنا پڑنے کی بات میں کچھ لگتا ہے؟ کہاں اسکولز سے زیادہ آلودگی ختم کی جا رہی ہے? مگر یہ تو صوبہ پنجاب کا کہنا ہو گیا ہے، اور۔
 
اس فضائی آلودگی کا معاملہ ایک بڑی مہم بن گئا ہے، اس نے لاہور میں شہر کے اسکولوں پر بھی اچانک اثر پڑا ہے۔ اس کے باعث ڈھیرے چنائی پڑے ہیں۔ اس سے وہ یہ بات تسلی دیتی ہے کہ آئندہ سال اور اس کے بعد کی مہموں میں وہ اسی چناؤ پر نظر رکھیں گے جو اب ڈیرے کی وجہ سے نہیں آ سکتی تھیں۔
 
اسے لگتا ہے کہ اسموگ گن استعمال کرنے کی بات کرتے ہوئے، شہر میں فضائی آلودگی کے vấnوں کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسکولوں کو اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑا ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا مشکل ہے کہ انہیں کتنے ہی منٹ تک کھل سکتے ہیں، تو جب تک وہ انھیں کھلا رکھتے ہیں وہ شہر میں آلودگی کو کم نہیں کرتا ہے؟ ان میں سے ایک کھلنا اور دوسرا بंद ہو جانا تو کیسے ہو گا؟ اس طرح کیا کچھ لگایا جائے گا؟

اسے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب شہر میں ایسے پلیٹ بنائی جائیں گے جو شہریوں کو اسMOG گن استعمال کرنے پر مجبور کریں گے، لیکن اُس کے بعد بھی فضائی آلودگی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
 
اس قدر آلودگی کا کھلے طور پر جواب دینا صرف ایک اسکول کی بات ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہے. اگر اس سمogg کے اقدامات سے آلودگی میں کمی واقع ہو رہی ہے تو توازن حاصل ہو گا.
 
پنجاب میں فضائی آلودگی کی صورت حال بہت حیران کن ہے, جس پر شہر کے اسکولوں کو اپنی عادتوں میں بدلنا پڑا ہے, مگر یہ بات ایسی ہی ہے جیسے گھر سے نکل کر اچانک کھیت میں پڑنا ہو .
 
ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہئے کہ 8 بج کر اٹھنا اور 45 منٹ کھلنا نوجوانوں کی تعلیم کی جانب سے صرف ایک راز ہے۔ ان کی تھکاوٹ اور لالچ کو توڑنے والی یہ تبدیلی کسی بھی حالات میں مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

لاکھوں کا اسکول پڑھتا سیکڑوں نوجوان بیٹھتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے ان میں ایسی منظر دیکھنا بے معقول ہے کہ وہ پڑھنے اور لکھنے کا شوق نہیں کرتے، تو یہاں سے کیا بنائیں گے؟

چلو کوشش کریں کہ اس्कولوں میں بھی ایسی تبدیلیاں آئیں جس کی وجہ سے نوجوانوں کو ہمیں ایک صحت مند زندگی پیش کرنے والے ملک کا محترم مقام حاصل ہوسکے۔
 
اس فضائی آلودگی کی صورتحال میں نہیں ایک حل پایا ہے، نہیں یہ بھی کہیں نہ جائے کہ شہر کے اس्कولوں کو اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑ گیا ہے، تو وہ بھی کچھ نہیں سیکھ سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک نازک موڈل ہوگا جس میں اہمیت کی کمی ہوگی، اس کے بعد نئی پوجا کیسے بنائی جائے گے؟
 
اس ماحولیاتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، مجھے لگتا ہے کہ پنجاب کی سینئر وزیر برائے ماحولیات کی جانب سے اسے بہت پہل میں ہی ایک اچھا کوشش کیا گیا ہے۔

اسموگ گن استعمال سے فضائی آلودگی میں کمی دیکھنے کو ملا ہے، لیکن یہ بات یقینی نہیں کی جا سکتی کہ اس صورتحال کا پورا حل ہو چکا ہے۔

اسلامپور اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں ایئر کوالٹی مانیٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے، اس ماحولیاتی معاملے کو حل کرنے سے پہلے، یہ بات بھی دیکھنی چاہئے کہ اہم معاملات کی سمجھ اور یोजनائی ہونے پر توجہ دی جائے۔
 
اس smoog ka kya faayda hai? sabhi log apne ghar se out hona chahiye? abhi tak bhi laal meree nahi ho rahi, toh kahan kiye jayein? wo bhi jaldi hi chali jaayegi. bas ek baar tu kaha hai, pata hoga, bas pata nahi kar paoge.

main samajh sakta hun ke logon ko samjhana chahiye ki smoog badh raha hai aur humein isse nipatna padega. lekin yeh sab sirf social media par announce karke kuchh na kuchh karna chahiye, toh ek sahi plan banane ki zaroorat hai.

kya logon ko samajh nahi aata ka wo bhi kyun hai? bas sirf pata lagaana aur action lena bhi zaruri nahi. humein smog ko reduce karna chahiye, lekin yeh sirf ek announcement se na ho sakta.

toh ek baar fayde ke bare mein sochen, pehle baat samajhna zaroori hai.
 
ابھی بھی پاکستان میں فضائی آلودگی کی صورتحال ایسی نہیں ہوتی کیونکہ جسے پہلے 2005-06 کا انچیلنٹ تھا اسے ابھی بھی یाद کیا جاتا ہے ، اور اب تک نہیں کیا گیا ہے جس سے آلودگی میں کمی لگ رہی ہو۔

آج شہر کے اسکولوں کو اپنے اوقات کار تبدیل کرنا پڑا ہے تو یہ بھی ایسے ہی ہوتا رہا ہوگا جو کہ آپ کو لگتا ہے ماضی میں بھی دیکھا گیا تھا ، مثال کے طور پر 1990ء اور 1995ء کے درمیان ایسی صورتحال۔

آر ایم جی اور اسMOG کے پہلے سے کیا جا چکا تھا اس کا کوئی اثر نہیں دیکھنا پڑتा ہے تو وہی ہوتا رہا ہوگا اور یہاں تک بھی ایسے ہی تھا جیسا کہ آپ نے پہلے سے دیکھا ہے۔

میری رائے میں اس کو اس موڑ پر بدلیں اور آلودگی میں کمی لگائیں تو ایسا ہی ہوتا جو کہ آپ جانتے ہیں
 
اس فضائی آلودگی کی صورتحال کی وجہ سے اسکولوں میں تبدیلی ہو رہی ہے تو یہ دیکھنا کہی مایوس کن ہے، ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے اس سے قبل اسی صورتحال میں پھنس کر رہے ہیں۔ مگر ان سے کچھ بدلائیں تو بہت اچھا ہو گا، شوق و شغف کی نئی سرگرمیوں سے انہیں نویں زندگی دے دی جاسکتی ہے۔
 
اسکولوں کی انچارجمنٹ سے پہلے اور بعد میں کھلنے کا وقت نہیں لگتا تھا، اب یہ ایک معاملہ ہے جس پر توجہ دی جائے اور اسے حل کیاجائے, سڈی نجی ٹی وی کا اعلان تو چالاک ہے لیکن یہی بات ہوگی کہ اسکولوں کی پالیسی کو اچھی طرح سمجھا جائے.
 
واپس
Top