روہنی آچاریہ نے جواب دیا تھا کہ ان کی علیحدگی سے پہلے آپسی کثرت سے گالیاں اور گندی گالیاں برسائی جاتی رہی ہے، اس لیے وہ اپنی خودداری پر پہنچ کر بھی انہیں یہ برداشت کرنا پڑا
اتوار کو انہوں نے ایک پوسٹ میں اپنے خاندان اور آر جے ڈی سے علیحدگی کے بعد کے واقعات بتائے، جس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں اپنی شادی شدہ عورت اور ماں کی تذلیل کی گئی اور اس پر انہیں گندی گالیاں برسائی جاتی رہیں، چپل اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کی گئی
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنی خودداری پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ڈٹے رہنے کی وجہ سے انہیں یہ سب برداشت کرنا پڑا، ان کے مطابق آپسی کثرت سے گالیاں اور گندی گالیاں برسائی جاتی رہی ہے
روہنی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے روتے ہوئے والدین اور بہنوں کو چھوڑ کر گھر سے جانا پڑا، جس کی وجہ سے وہ مجبوری کے عالم میں پھنس گئیں
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں اپنے ہی میکے سے الگ کر دیا گیا، اس کی وجہ سے وہ یتیم بنا گئیں اور اللہ کربے کروڈوں روپوں پر نہیں
جس واقعات کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس میں تیجسوی یادو کے قریبی دو افراد نے ان کی علیحدگی سے قبل اور بعد میں انہیں بھڑکایا، ان کے مطابق انہوں نے انہیں Politics چھوڑنے اور خاندان سے رشتہ توڑنے کا مشورہ دیا
اس معاملے کو دیکھتے ہوئے، مجھے لگتا ہے کہ روہنی آچاریہ کی علیحدگی سے پہلے کے واقعات کا احاطہ کیا جا رہا ہے اور ان کے خاندان میں موجودہ تناؤ کو سامنے لاتا ہے اس کے علاوہ، ان کی جدوجہد کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کی مستقلیت پر گھر سے جانے کی وجہ سے ان کا حوالہ جاتا ہے
وہ جواب دہ ہوا یہ کہ روہنی آچاریہ نے اپنے گھر میں بے حد سڑک پر چڑھ کر رہی ہے حالانکہ وہ ایسا کہے تھیں کہ اپنی علیحدگی سے پہلے اس کی دیکھ بھال نہیں کی جاسکتی تو اس کا جواب ہوتا کہ وہ ایسا نہیں کرتے ان میں گالیوں اور برسائیں دیر سے ہی رہتی ہیں
روہنی آچاریہ کی اس بات کو پوری طور پر تسلیم کیا جائے کہ علیحدگی کرنے والی خواتین کو بھی دوسری خواتین سے گالی برسائی جاتی ہے اور وہاں تک یہ برداشت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی خودداری پر پہنچ جائیں، یہ معقول نہیں کہ کسی نے انھیں ایک دوسرے سے گندی گال تاکر ان کی امانت توڑ دی ہو۔
خاندانی تعلقات میں جس طرح سا ایم جی ایم کے حوالے سے دباؤ پڑتا ہے وہیں ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا ہے، یہ سب ماحول کی لپیٹ میں رہنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے خواتین کو اپنے مرض سے بھی اچھی طرح آگاہ ہونے کی ضرورت ہے، تو وہ اپنی زندگی کو بھی ایسی ہی ماحول میں نہ چلا کے بہتر بناسکین
اس روانی آچاریہ کی علیحدگی سے پہلے ان کی زندگی کس طرح تھی، اس میں ہر چیز بدلی جارہی ہے، آپسی کثرت سے گالیاں اور گندی گالیوں کی وہاں برسائی جاتی رہی ہے، اس لیے انھیں اپنی خودداری پر پہنچ کر بھی یہ برداشت کرنا پڑا
اس سے پہلے وہ کیا تھیں؟ اب یہ ڈھونا ہی نہیں لگ رہا، اس روانی آچاریہ کی وہاں ہونے والی باتیں سبھی سوجھ رہی ہیں، وہ اب یہ کیا کرتے ہیں؟
جس پوسٹ میں انہوں نے اپنے خاندان اور آر جے ڈی سے علیحدگی کے بعد کے واقعات بتائے، اس میں انھیں اپنی شادی شدہ عورت اور ماں کی تذلیل کی گئی اور اس پر انھیں گندی گالیوں برسائی جاتی رہیں، چپل ہٹا کر اس کے خلاف کارروائی کی گئی
اس سے پہلے وہ یہ کیا تھے؟ اب یہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، وہ سبھی سوجھ رہتے ہیں، وہ پھر کیا کرو گئے؟
ابھی تو اس نے بتایا کہ انھوں نے اپنے روتے ہوئے والدین اور بہنوں کو چھوڑ کر گھر سے جانا پڑا، جس کی وجہ سے وہ مجبوری کے عالم میں پھنس گئیں
اس سے پہلے وہ یہ ہی نہیں تھے؟ اب یہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، وہ سبھی سوجھ رہتے ہیں، اور فائنل طور پر اس نے بتایا کہ وہ اب تیسری پالیٹی میں ہیں
روہنی آچاریہ کی علیحدگی کا یہ واقعات بہت ہی معصوم ہے، آپسی کثرت سے گالی بھی اتنا تو ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر بھی وہ اپنی خودداری پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے یہ سب برداشت کرنے پڑیں۔ مجبوری کے عالم میں پھنس گئیں، ایک اور کہنا ہوتا تو یہ سارے واقعات ایسے نہ تھے کہ وہ اپنی علیحدگی کا فیصلہ کرنے کو مجبور ہوں۔ لگتا ہے ان کی آواز سننے کے بعد اب آپسی کثرت سے گالی بھی چھٹکتی ہے؟
اروہنی آچاریہ کی علیحدگی کا واقعہ ہمارے لئے ایک ایسا حیرت انگیز موقع ہے جس میں اس نے اپنے خاندان اور آر جے ڈی سے علیحدگی کے بعد کی واقعات کو سائنوں سے بیان کیا ہے
اس نے بتایا کہ انہیں اپنی شادی شدہ عورت اور ماں کی تذلیل کرائی گئی اور اس پر انہیں گندی گالیاں برسائی جاتی رہیں، یہ سچ ہے کہ آپسی کثرت سے گالیاں اور گندی گالیاں برسا رہی ہوتے ہیں؟
لیکن جب اس نے اپنی خودداری پر سمجھوتہ نہیں کیا تو انہیں اس سب کو برداشت کرنا پڑا اور وہ مجبوری کے عالم میں پھنس گئیں
یہ بات کتنی حقیقی ہے کہ ناچنے والے لوگ ہر وقت غلطیوں پر دھیان kendit karte hain, اور جب انہیں سچائی پہچاننے میں مدد ملتی ہے تو وہ اس پر بھی غلطی کرتے hain
اس واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی آپسی کثرت سے گالیاں اور گندی گالیاں برسائی جاتی رہتی ہیں، جو ایسا نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ رشتہ توڑنے والوں کی طرف سے مجبور نہیں کیاجائے
رोहنی آچاریہ کی علیحدگی کے واقعات بہت تباہ کن ہیں, انہوں نے کیسے اپنی خودداری پر پہنچ کر بھی یہ برداشت کرنا پڑا؟ اس کے بعد کے واقعات تو لگتے ہیں کہ وہ ایک یتیم اور مجبوری کے عالم میں پھنس گئیں, یہ تو بے مثال ہے
یہ بات بہت جھگڑی ہے، روہنی آچاریہ کی علیحدگی کے بعد اس پر یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے خاندان اور آر جے ڈی سے بھاگ کر انہیں برداشت کر دیا ہے، اس کے بعد بھی اس پر گالیں اور چپل ہٹاؤ کی وجہ سے مجبوری کے عالم میں پھنس گیا ہو تو یہ حقیقتہ نہیں ہوسکتا، اس کے بعد اگر وہ خاندان اور آر جے ڈی سے بھاگ کر مجبوری میں پھس گئیں تو یہ بات ہی نہیں ہوسکتا، اس کے بعد یہ بات تو یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان اور آر جے ڈی سے بھاگ کر مجبوری میں پھس گئیں