پاکستان کے اس وقت کی معززی سربراہ محمود خان اچکزئی نے ایکس پر اپنے بیان میں یہ باتوں بتائی ہیں کہ جہاں بھی دہشت گردی ہوتी وہاں اس کی انتہائی مذمت کی جا سکتی ہے، وہاں تک کہ وہ پہلے سے ہی دہلی اور اسلام آباد کے اس دھماکوں پر تھوڑی چیز تشویش کرتے ہوئے بتاتے ہیں، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں خوف و هراس پیدا ہوتا ہے اور لوگ اپنے گھروں میں تنگ آتے ہیں۔
ساتھ ساتھ انہوں نے افغانستان کے ملک کے بارے میں بھی اچانک بات کی کہ یہ ملک پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے، جس سے یہ دیکھنے لگتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو ایک بھرپور خطرہ بن چکا ہے۔
دھمکیوں کی پہچان میں ایسے کئی اسباب جیسے پاکستان کی سترہ وری ترمیم، افغانستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدوں کو نظر انداز کرنا، جو پھر بھی فوج کی مدد کے لئے اسکولوں اور سڑکوں پر چھپے ہوئے فوجی افسر کی سرگرمیوں کی وضاحت دیتا ہے اور ان میں یہ بات نہ ہونے کی ترغیب دیتی ہے کہ جب فوج نے اس ملک کو دھمکی دی تو وہ دھمکی کا جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے۔
ان نے پتہ چlatو کہ ڈیرہ سائید کا واقعہ بھی انھیں کافی چنجنا والا تھا، جس میں دھمکیاں ڈالنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اس طرح وہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر دھمکیاں دے رہے ہیں جو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کسی بھی سے ملاپ نہیں ہوتا اور ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ دونوں دوسرے کی جانب تو توجہ بھٹوری۔
جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایسی سیرین سے سچائی کا خوف تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں لہر اٹھاتے ہیں، اور وہ جان جیتنے کی کوشش کر رہتے تھے لیکن پچھلے سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں انھوں نے ایک نئی ترمیم اپنی جانب سے لے کر ایسے معاملات پر بات کی جس کا خیال تھا کہ وہ ملک کو اس خطرے سے بچا دے گا اور ڈیرہ سائید، دیہات اور قصبے میں دھماکوں سے لار آئی، جو نتیجے میں سچائی کے خوف کو بڑھانے اور ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جس کے تحت وہ لوگ جو اس سے مخالف ہیں اور ان کی جان پر حملہ نہیں بھونے دیتے، ان کے لئے ایک اور خطرہ بن جاتا ہے۔
اس لئے انھوں نے اپنی جان پر بات کی کہ اس ملک میں پالیسی بنانے والوں سے کوئی بات نہیں بھونے اور ان سے بھگتے ہوئے شخصوں کو ملک میں اپنی جان و جائیداد کے بدلے دھمکیاں دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، پتہ چلتاتھا کہ وہ ملک میں جو لوگ ان سے مل کر اچھی بات کرتے ہیں ان کی جان کو بھی خطرے میں نہ لائے، ان سے مل کر جس بات پر بات کی جا سکتی ہے وہ بات اور ہی کہنی چاہئیں۔
ساتھ ساتھ انہوں نے افغانستان کے ملک کے بارے میں بھی اچانک بات کی کہ یہ ملک پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے، جس سے یہ دیکھنے لگتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو ایک بھرپور خطرہ بن چکا ہے۔
دھمکیوں کی پہچان میں ایسے کئی اسباب جیسے پاکستان کی سترہ وری ترمیم، افغانستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدوں کو نظر انداز کرنا، جو پھر بھی فوج کی مدد کے لئے اسکولوں اور سڑکوں پر چھپے ہوئے فوجی افسر کی سرگرمیوں کی وضاحت دیتا ہے اور ان میں یہ بات نہ ہونے کی ترغیب دیتی ہے کہ جب فوج نے اس ملک کو دھمکی دی تو وہ دھمکی کا جواب دیتے ہیں، یہ سب کچھ ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے۔
ان نے پتہ چlatو کہ ڈیرہ سائید کا واقعہ بھی انھیں کافی چنجنا والا تھا، جس میں دھمکیاں ڈالنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اس طرح وہ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے پر دھمکیاں دے رہے ہیں جو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کسی بھی سے ملاپ نہیں ہوتا اور ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوتی کیونکہ دونوں دوسرے کی جانب تو توجہ بھٹوری۔
جس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایسی سیرین سے سچائی کا خوف تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں لہر اٹھاتے ہیں، اور وہ جان جیتنے کی کوشش کر رہتے تھے لیکن پچھلے سے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں انھوں نے ایک نئی ترمیم اپنی جانب سے لے کر ایسے معاملات پر بات کی جس کا خیال تھا کہ وہ ملک کو اس خطرے سے بچا دے گا اور ڈیرہ سائید، دیہات اور قصبے میں دھماکوں سے لار آئی، جو نتیجے میں سچائی کے خوف کو بڑھانے اور ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جس کے تحت وہ لوگ جو اس سے مخالف ہیں اور ان کی جان پر حملہ نہیں بھونے دیتے، ان کے لئے ایک اور خطرہ بن جاتا ہے۔
اس لئے انھوں نے اپنی جان پر بات کی کہ اس ملک میں پالیسی بنانے والوں سے کوئی بات نہیں بھونے اور ان سے بھگتے ہوئے شخصوں کو ملک میں اپنی جان و جائیداد کے بدلے دھمکیاں دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، پتہ چلتاتھا کہ وہ ملک میں جو لوگ ان سے مل کر اچھی بات کرتے ہیں ان کی جان کو بھی خطرے میں نہ لائے، ان سے مل کر جس بات پر بات کی جا سکتی ہے وہ بات اور ہی کہنی چاہئیں۔