امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران صحافیوں سے تیز لہجے میں گفتگو کی جس سے انہیں یہ محسوس ہوا کہ انہیں مہمان کو شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس رویے نے ایک رپورٹر کو ایک بڑا خوف اٹھانا پڑا جو اپنے تعلقات سے متعلق کئی सवال پوچھ رہا تھا۔
امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ جمال خاشقجی کی قتل کیس میں محمد بن سلمان کو کوئی علم نہیں تھا جس سے امریکی انٹیلی جنس کی 2021 کی رپورٹ کی تردید ہوتی ہے جو کہ یہ کہہ کر تہہ متعصبانہ اس کے بارے میں بات کرتا ہے کہ یہ کارروائی ولی عہد کی منظوری سے ہوئی تھی۔
ابھی ہلچل میں باقی ایک شخص انھوں نے کہا کہ خاشقجی کا قتل ایک ’’تکلیف دہ واقعہ‘‘ اور “سنگین غلطی” تھی، سعودی عرب نے کیس کی تحقیقات کے لئے تمام درست اقدامات کئے ہیں۔
ان سب سے پہلے خاشقجی قتل کیس پر بات کرنے والے صحافی کو تیز لہجے میں جواب دیا گیا جس نے کہا کہ “تم ایک انتہائی متنازع شخص کی بات کر رہی ہو، بہت سے لوگ اس شخص کو پسند نہیں کرتے۔
میں یہ دیکھنے میں پریشاں کیا گیا ہے کہ ابھی ہلچل میں بھی کس طرح جواب دیا گیا ہے؟ اس ملاقات کی سب سے پہلے خاشقجی قتل کیس پر بات کرنے والے صحافی کو تیز لہجے میں جواب دیا گیا تھا جو انہیں واضح نہیں بناتا ہے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔ وہ بھرے لہجے سے کہہ رہے تھے کہ خاشقجی ایک انتہائی متنازع شخص کی بات کر رہا ہے، جسے بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے... اس سے پہلے اس ملاقات میں سعودی ولی عہد کو ایک تیز لہجے میں جواب دیا گیا تھا جس سے انہیں محسوس ہوا کہ انہیں مہمان کو شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہ ملاقات کا انصاف کیس میں ہونے کی بات تو آسان ہے لیکن یہ سچ نہیں کہ امریکی صدر کو سعودی ولی عہد کی بات کرنے پر ایسا لہجہ استعمال کرنا بہت اچھا لگتا ہو۔ یہ تو صحافیوں سے تیز لہجے میں گفتگو کرنا بہتر ہوتا کہ نہیں؟ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اور صحافی کی بات سے جواب دیا گیا تو اس پر یہ کچھ کہنا ہوگا کہ خاشقجی قتل کیس میں ہونے والی کارروائی میں کسی نے انصاف اور ایمانت کی واضح نشاندہی نہیں کی تھی۔
یہ وہ چیز ہیں جو مجھے یوم حسرت کے دنوں میں یاد آتی ہیں جب میرا بچا بھائی نے مجھے ایک لاکھ روپے کی دوئی دیکھی تھی۔ وہ عرصہ ہمیں بہت ہوشوار کیا کرتا تھا اور ابھی یہ کہتا ہو کہ خاشقجی کی قتل ایک تکلیف دہ واقعہ اور سنگین غلطی ہے، مجھے پتا چلا کہ اس سے انساف کا کوئی نتیجہ نہیں نکالے گا؟
امریکی صدر کو انہیں مہمان کو شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں، پھر بھی ایک صحافی سے تیز لہجے میں بات ہوئی جو اچھا ہوگا یہی چاہیے کہ وہ بھی مہمان کو شرمندہ کرنے کی ضرورت نہیں، یا اس سے پہلے ان سے کچھ معافتیان مل جائیں?
سعودی عرب کی جانب سے خاشقجی قتل کیس میں ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے، یہ بہت چیلنجنگ ہے، جس سے صحافیوں کو نوجوانوں اور عوام کے ساتھ بات کرنا ہوتا ہے، ایسے میڈیا پرستوں کو ان کے تعلقات کی جانب پھرنے کے لئے زیادہ دباؤ نہیں ہونا چاہیے، اور وہ بھی سچائی سے بات کرتے ہوئے ہونا چاہیے.
یارے تو یہ جاننے کا معقض ہے کہ امریکی صدر کی ایسے رویے سے لگتا ہے جیسے وہ پچھلے دور میں تھے، تیز لہجے سے بات کرنے کا یہ رواج کبھی ختم نہیں ہوا تاکہ صحافیوں کو شرمندہ کیا جاسکے۔
ابھی ہلچل میں باقی ایسا لگ رہا ہے کہ یہ Killings case ایک ’’تکلیف دہ واقعہ‘‘ اور “سنگین غلطی” ہے تو کیوں؟ سب سے پہلے بھی یہی بات چیت کی جاتی تھی، اب کون ایسا شخص کہتای گے جو اس بات کو چیلنج کرے؟
تمام صحافیوں کو اپنے تعلقات اور انٹرویو کے دوران خود کو کوئی لہجہ بھرانا چاہیے، جیسا کہ اس امریکی صدر نے کیا ہوا تھا وہی صورت حال مہمان کی طرف سے بھی اچھی طرح دیکھنے کو ملتی ہے۔
ایک صحافی کو انٹرویو میں کوئی خاص سوال پوچھنا چاہیے تاکہ وہ اپنی بات اس پر مبنی کرسکتا ہو، اس صورت حال میں یہ صحافی نے ایسا کر دیا جس سے وہ اپنے تعلقات کو محفوظ رکھ سکا ہوتا۔
یہ وہ صورت حال ہے جس سے آپ کا دماغ پھنس جاتا ہے...امریکی صدر کی یہ بات ایک دوسری سے متصادم ہے، پہلے وہ کہتے ہیں کہ محمد بن سلمان کو یہ علم نہیں تھا اور پھر بھی وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کارروائی ولی عہد کی منظوری سے ہوئی...لیکن جب وہ صحافیوں سے بات کرتے ہیں تو وہ تیز لہجے میں جواب دیتے ہیں، یہ ایک کہلے نان کا کھیل ہے...میں سمجھتا ہوں کہ وہ کیونکر ایسا کر رہے ہیں جب تک ان کی بات سے کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوتا...میں بھی اس صورت حال پر اپنی نظر کھینچنے میں کامیاب نہ ہو سکا...
اس ماحول میں لے کر آئے تو یہ لگتا ہے جیسے پھر ایک ہدایت کار نے امریکی صدر کو بھی کیا ہو۔ تیز لہجے میں بات کرنا اور کہنا کہ “تم ایک انتہائی متنازع شخص کی بات کر رہی ہو”… یہ وہی چٹان ہے جس پر اب تک صحافی انترنیٹ پر بیٹھتے ہیں…
امریکی صدر کا Saudi King سے ملاقات کرنے والے صحافیوں سے تیز لہجے میں بات کرنا ہمیشہ بھی کرونا چاہئے اور یہی لیکن انہیں مہمان کو شر mandeh hona nahi chaahe .
یہ رواج اگر سچ میں بھی رہے تو سعودی عرب میں حالات بہت بدلنے والے ہیں۔ ایک صحافی کو اس مقام پر اپنی آن لائن تعلقات پوچھنا نہیں چاہئے .
جمال خاشقجی کیس میں محمد بن سلمان کی جانب سے ہونے والی کارروائی پر अमریکی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کو تردید کرنا تو بھی زیادہ اچھا بات نہیں ہوا۔
اس کیس میں ابھی کئی پتے پتھرے اور حالات ابھی بدلنے والے ہیں ،اس لیے یہ رپورٹ کو تردید نہیں کرنا چاہئے۔
سaudi King Muhammad bin Salman ko usse match karna zaroorat nahi hai, sab log usse pasand nahin karte hain . Maine dekha hai ki woh apne taalon par bhi basara hua hai, wah yah kya keh raha hai ? . Khaleej ki murder case mein king ko koi pata nahi tha? ye kya log sach batate hain . King ne apni galti pehli baar suni hai, phir se yah usse pasand nahin hai .
عمر آپ کی یہ خبر نہیں سنے تھے؟ مگر یہ بات تو واضح ہو گی، کہ جس چہل پر امریکی صدر ایک فلمی اداکار کی طرح بات کر رہا ہے، اس میں کوئی نہ کوئی موڈ تھا کہ وہ اپنے شائقین کو بھی شرمندہ کرنے لگتا ہے، مگر یہ بات تو ایسے صحافیوں پر کہی جاتی ہے جو کہ اس وقت انھیں ان کے ساتھ آؤٹ ہونا پڑتا ہے۔
اور یہ بات کہ امریکی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ کو تردید کر دی گئی، اس سے نکلتی ہے کہ ابھی تک سعودی عرب نے یہ رپورٹ نہیں دیکھا تھا، مگر اب تو وہ رپورٹ بھی واضح ہوگی۔