بی جے پی کی حکومت کے حلقوں سے 75 موبائل نمبرز کے ذریعے الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے، اس سے بعد میں ووٹر لسٹ میں کیے گئے بڑے پیمانے پر رد و بدل اور نام حذف کرنے کا مظاہرہ ہوا ہے۔
یہ کارروائی اس منظم مہم سے وابستہ تھی جس میں ڈیڑھ سالوں کی مدت میں ہر ووٹر کا نام حذف کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا اور اس کے لیے 80 روپے فی درخواست دی گئی تھیں، جو اس منظم مہم کی مالیاتی مٹائی تقریباً 4.8 لاکھ رypioں سے بنتی تھیں۔
کرناٹک کے الند حلقے میں اس مہم نے بے مثال سسٹم کی بناوٹ کی اور اس سے یوں متعلق معلومات اس ناکام حکومت کو مل گئی ہیں جو اب ووٹ چوری کا الزام کیا جارہا ہے۔
جعلی اکاؤنٹس بنانے والے الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جو لاپرواہی تھی ان میں سے صرف 24 درخواستیں ووٹر کی جانب سے دی گئیں، اور باقی تمام جعلی_request الیکشن کمیشن کو جمع کروائی گئیں۔
اس مظاہرے نے ان کے لیے بھارتی معیشت میں ایک بدقسمتی بن گئیہ۔
ایسا تو ہی محسوس ہوتا ہے کیوں کہ ہر سال ایسی ہی حالات پیدا ہوتی ہیں، مگر ابھی ابھی پہلے کے وہی معاملہ دیر سے نکل آیا ہے اور اب بھی اس کا انعقاد جاری ہے، یہ بے چینی کتنے لوگوں کو براہ راست متاثر کرتی ہے؟
کیا یہ بہت غالب ہے! مینوں لگتا ہے کہ اس مظاہرے کے بعد الیکشن کمیشن کو ان کے آپریشنز کو بہت تھوڑی پکڑنا ہوگی۔ اگر یہ ساتھ ہوتا تو ووٹ چوری کا الزام نہیں لگا اور ڈیڈلائٹ کرنے والی جبلیں دوسرے مظاہرے میں آئیں تو کیا پھول پوگی?
جب یہ سب کچھ سامنے آ گیا تو لگتا ہے کہ انھوں نے اپنی مٹائی بھی اتنا جھا دیا ہو گا اور اب ووٹر ایسا مشق چلائے گا کہ اس کے بعد بھی کوئی یہاں آ سکیں گے?
جب سے یہ بات سامنے آئی کہ الیکشن کمیشن کا پورٹل ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل اور نام حذف کرنے کے مظاہرے کا شکار ہوا تو یہ تھا ایک ایسا حوالہ جو اس پورٹل کی ناکامی کو بہت جارحانہ طریقے سے ظاہر کر رہا ہے۔ اس بات پر کچھ لوگ بھی یوں سوچ رہے ہیں کہ وہ پورٹل بہت ناکام اور لاپرواہ ہے۔
جب اس معاملے کی کاوशش کیا جائے تو یوں پتا چلا کہ ان سے قبل ہی انھیں 80 روپے فی درخواست دیئے جاتے تھے اور اب وہ 4.8 لاکھ رypioں پر اس معاملے کا معاملہ سامنے لایا ہوا ہے جو بہت زیادہ ہے۔
اس لیے اس پورٹل کے ناکام ہونے کی بات کرنا ایک نئی بات نہیں۔ اب یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ انھوں نے بھارتی معیشت میڰی ایک بدقسمتی بنا دی ہے۔
تمہیں پتا ہوگا کے یہ مظاہرہ بالکل ایسا نہیں تھا جیسا اس پر لوگ تجویز کر رہے ہیں کے الیکشن کمیشن کو کافی اچھی ترقی کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات سچ ہے کے اس مظاہرے کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک اچھی طرح ترمیمی تبدیلی کی ہوگی اور ووٹ چوری کا یہ الزام اب ان کے لیے ایک مہیا بن گیا ہے جو ان کی ترمیم میں سے ایک ہوگا
ایسے حالات کی پہلی نظر سے اچھے لگتے ہیں، چاہے ووٹر یا الیکشن کمیشن، پوری ناکامی کے بعد یہ کہنا کہ دوسروں کی جانیں لوگوں کے سامنے اچھی ہیں کا مظاہرہ تو ایسا ہی ہوگا۔ لاپرواہی اس سے زیادہ بھی محفوظ نہیں ہوتی جتنی ووٹر کی جانب سے اپنے حق کے لیے دباؤ پڑتا ہو اور کسی کو بھی جانیں ہارنا پڑتی ہیں۔
یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ حکومت کی ملازمین بے حد لاپرواہ ہیں! 75 موبائل نمبرز سے الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنانے میں انھوں نے کتنے پیار کیا، اور اب ووٹ چوری کا الزام ہمیشہ سے ان کے سر پر ہی سوار رہا ہے!
یہ بھی تو واضح ہے کہ انھوں نے یہ کارروائی ایک منظم مہم سے وابستہ کی، جس میں 80 روپے فیREQUEST دی گئے تھے اور اس کی مالیاتی مٹائی تقریباً 4.8 لاکھ رypioں سے بنتی تھی! یہ تو کتنا کمزوری ہے کہ انھوں نے یہ کیا؟
کرناٹک کی الند حلقوں میں انھوں نے بے مثال سسٹم کی بناوٹ کی، اور اب وہ ووٹ چوری کا الزام کرتے ہیں! یہ تو انھیں کمزور پکڑ کر رہا ہے!
وہ جھوٹے اور لاپرواہ الیکشن کمیشن کے پورٹل پر دالے جانے سے منسلک 75 موبائل نمبرز کا یہ مظاہرہ، ایک بدقسمتی ہیں جس نے ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل اور نام حذف کرنے کی کارروائی کا مظاہرہ کیا ہے. یہ بتاتہ ہے کہ ان 80 روپوں کی فیہ سے اس منظم مہم کو پورا کرنا تھا، لیکن انہوں نے معاملے کو بھی کمرشل بنایا اور اس کے لیے 4.8 لاکھ رypioں کی لگن دی ہے۔
یہ واضح کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جو جھوٹے اور لاپرواہ کارروائیyan کی گئیں ان میں سے صرف 24 اس ووٹر کے ذریعے دی گئیں جو نہیں، اور باقی تمام جعلی_request لگایے گئے تھے. یہ معاملہ تو بھارتی معیشت میں ایک بدقسمتی ہے لیکن اس سے پہلے یہ بات واضع ہو چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کو اپنی ملازمت کو بھرنا پڑا ہے.
اچھا وہ اس سے سیکھتا ہے کہ جو اپنے فائدہ کے لیے لوگوں کو جھانی رکھتے ہیں وہ خود محفوظ نہیں ہوتے। یہ مظاہرے ان الیکشن کمیشن کے اداروں کی ذمہ داری کو ظاہر کرتے ہیں جہاں سے لوگ اپنے نام کے بارے میں حقیقی معلومات کے بدلے جھوٹی معلومات بھیج رکھتے ہیں اور ووٹ کی گئی بھی جب تک وہ مظاہرہ جاری رہتا ہے تو ووٹ کے نتیجے میں تبدیلی آتی ہے۔
اسے سمجھنا چاہئے کہ پورا نظام بھی ان لوگوں کی سست فوج پر ہوتا ہے جو اس کی چھت کو دھکائنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کی بات ہے تو یہ بہت تھوڑا سا مفید ہوا کہ لوگ جب ان 75 موبائل نمبرز سے الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جھوٹی اکاؤنٹس بنانے لگے تو وہاں بھی جھوٹی معلومات کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی اور اب یہ الیکشن کمیشن کو ووٹ چوری کا الزام ڈالنا پڑ گیا جو سچ میں ان لوگوں نے اس مظاہرے سے کیا تھا۔ یہ مظاہرہ کرتے ہوئے لوگ جب الیکشن کمیشن کے پورٹل پر اچھی معلومات جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو وہاں انہیں یہ لاپرواہی مل گئی۔ اب ووٹر لیسٹ میں ایسی بڑی تعداد میں رد و بدل اور نام حذف کرنے کا مظاہرہ ہوا جس کی وجہ سے اس معاملے میں کوئی بھی سچائی نہیں سامنے آ سکتی۔
بھارت کی الیکشن کمیشن کو یہ دیکھنا بہت ہی ٹھीक نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنانے کی گئی کارروائی کو جو لوگ ووٹر اور الیکشن کمیشن کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ان پر بھی اس طرح کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ تو دیکھ لیا گیا تھا کہ جسے ووٹر کی جانب سے ووٹر لسٹ میں کسی نہ کسی تبدیلی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو 80 روپے کا چیلنج کیا جاتا ہے اس میں بھی کچھ لوگ ایسا کر رہے تھے اور اب ووٹر کی جانب سے ان چیلنجز کو الیکشن کمیشن کو جمع کروائی رکھتے ہوئے یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔
جب سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پورٹل پر جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک بڑا نقصان تھا، اس سے ووٹر لسٹ میں کیے جانے والے بڑے پیمانے پر رد و بدل اور نام حذف کرنے کا مظاہرہ نکلنا پدا ہیں، لگتا ہے کہ اس منظم مہم کو ایک مختلف طریقہ سے شروع کیا جاتا تو اس کے معاملے میں کمی کی جا سکتی تھی۔