ملک پاکستان میںPolitics کی ایک اہم پہلی ہے جس پر سربراہانہ ملک بھر کے سیاسی Leaders،سینیٹرز،مبانی پی ٹی آئی نے ملاقاتوں سے نہ آگاہ ہوئے۔
سینیٹر کمران مرتضی نے جے یو آئی کی دوسری بار سے شریک ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ رائے پزیر نہیں۔
سینیٹر کمران مرتضی نے جے آئی کی دوسری بار سے شریک ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ رائے پزیر نہیں
انہوں نے انفرادی طور پر کہا کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو آگے نہیں بڑھ سکتے۔
کسی سیاسی Leader کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ بھی کر رہا ہے تو اس کے بعد ایسا نہیں،انہوں نے کہا کہ بانی عمران خان کے کہنے پر گرینڈ اپوزیشن الائنس پر کام کر رہے ہیں اور جلد کامیابی ملے گی
تحریک انصاف کی ایک نئی جنرل سیکریٹری عمران خان نے انفرادی طور پر Maulana Fazlur Rehman سے ملاقات کرنے والی پتی ٹی آئی کی ناکامگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ایسی ناکامگی اس وقت نہیں دیکھی گئی جب یہ تحریک انصاف میں شامل ہوا، یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی ناکام نہیں۔
تحریک انصاف کی ایک نئی جنرل سیکریٹری عمران خان نے انفرادی طور پر Maulana Fazlur Rehman سے ملاقات کرنے والی پتی ٹی آئی کی ناکامگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی ایسی ناکام نہیں دیکھی گئی جب یہ تحریک انصاف میں شامل ہوا، یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی ناکام نہیں
جے یو آئی سینیٹر کمران مرتضی نے انفرادی طور پر کہا کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ان کے اس بیان سے انھیں اپوزیشن الائنس کی آگے بڑھنا میں دباؤ پڑا ہے،جس سے یہ بات تازہ کرتی ہے کہ جے آئی انہیں ناکام کرسکتا ہے تو وہ کیسے بھی کامیاب رہ سکتا ہے؟
جے یو آئی سینیٹر کمران مرتضی نے انفرادی طور پر کہا کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو آگے نہیں بڑھ سکتے
ایسے میڈیا کے بیان سے یہ بات تازہ کرتی ہے کہ جس سیاسی Leader کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ بھی کر رہا ہے،وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو کیسے؟
میں سوچتے ہوئے ہوں کہ یہ دیکھنا مشکل ہوا کہ جب تک ایسے Leaders نہ ہوجائیں جو اپنے Politics کو ایک حقیقی رکنی politics بنا دیں تو ایسا سارہ politician bina leader ka nahi rehta
انہوں نے بانی عمران خان کی Grand Opposition Alliance پر کام کرتے ہوئے پتہ لگایا ہے کہ انھیں دوسرے Leader ki side par دباؤ میں لانا پڑتا ہے تاہم یہ بات کوڈ کر دی جائے کہ اگر ایسے Leaders نہ ہوجائیں جو politics ko leader banaye rakhein تو opposition alliance bhi کامیاب رہ سکتی ہے.
سینیٹر کمران مرتضی کی انفرادی طور پر جاننی والی باتوں سے ابھی ابھی پی ٹی آئی کی ناکامی کو تازہ کر رہا ہے۔
جب تک کہ ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو، آگے بڑھنا مشکل ہے، اس کی پوری بات دیکھنے کو ملتی ہے اور جب سینیٹر کمران مرتضی کہتے ہیں کہ انھیں اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ بھی کر رہا ہے تو یہ بات بھی دیکھنی پڑتی ہے کہ جس لیڈر کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ میں ہے وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو کیسے؟ یہ بات تازہ کرتی ہے.
یہ بات سچ ہے کہPolitics کی ایک اہم پہلی پر تمام سیاسی Leaders میں دباؤ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی بات حقیقت ہے کہ politics میں کسی کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت کرنے پر دباؤ پڑتا ہے تو وہ آگے بڑھنا چاہتا ہوتا ہے۔ اس لیے،Politics کی ایک اہم پہلی کے بعد میں politics کا رہنما کو اپنی اور اپنے दल کی اچھائی دیکھنا چاہیے تاکہ وہ آگے بڑھ سکتا ہو۔
یہ بھی دیکھنا worth full hai کہ جب ایسے Leaders ہوتے ہیں جو اپنے حلقوں کی رائے پر زور دیتے ہیں تو انھیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کی رائے سے الگ ہو کر نہیں بطور حلقوی Leader اپنے حلقوں کی رائے پر زور دیتا ہے تو اس کے بعد وہ اپنی پارٹی کو ڈھیلے ڈھیلے پھیلایا بھی جاتا ہے اور اپنے حلقوں کی رائے پر زور دیتا ہے تو وہ کامیاب ہوسکتا ہے؟
یہ بات سچ پکتی ہے جو کمران مرتضی نے کہی ہے کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہیں ہوتے تو آگے بڑھ سکتے نہیں، یہ ایک سبق ہے جو پوری سیاسی دنیا کو سمجھنا چاہیے۔
لیکن ایسا کیا کرنے دوں کے؟ اگر اس بات پر فोकس کیا جائے تو یہ سچا सवाल ہوتا ہے کہ لیڈرز کی قیادت میں ناکام نہیں رہنا چاہیے اور وہ اپنے حلفdarوں کے ساتھ موافقت بھی کرنا چاہیں۔
جی یہ سچ ہے کہ پاکستان میںPolitics ایک اہم پہلی ہے لیکن اس پر سربراہانہ ملک بھر کے سیاسی Leaders،سینیٹرز،مبانی پی ٹی آئی نے ملاقاتوں سے نہ آگاہ ہوئے جو کہ اچھا نہیں ہے.
کیا یہ politics میں ایسا ہوتا ہے جب تک سینیٹر کمران مرتضی کو آگے بڑھنا نہیں چاہتا، ایک دوسرے کے مقابلے میں اسے توازن ملنا چاہیے۔ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو آگے نہیں بڑھ سکتے، یار ہو! اب اس میڈیا کی بات تازہ کرتی ہے کہ جسے دباؤ بھی کر رہا ہے، آگے بڑھنا چاہتا ہو تو کیں نہیں کیا؟
اس میڈیا کی بات سے واضح ہوتا ہے کہ جس political Leader کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ بھی کر رہا ہے،وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو جسمانی طور پر دبایا نہیں دیتا۔ پہلا قدم ہوتا ہے،تھوڑی عمدگی سے،اور پھر وہ اپنے آپ کو دبائے رکھتا ہے۔
یہ بات کی واضح نہیں ہے کہ ہم ابھی جے یو آئی یا پی ٹی آئی کا خلاصہ کس پر دباؤ پڑ رہا ہے؟ یہ سارے آندھی لپٹ کر دکھائی دیتے ہیں کہ وہ دوسرے کس کے خلاف کبھی بھی بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟
جب میں بچہ تھا، اس ستمند سیاست دان عمران خان سے آپنی پدھر پر ملاقات کرنے والوں کے لئے واضح ہوتا تھا کہ آپ کو دوسروں کی طرح جو بھی رائے نہیں لینا چاہیے، آپ ان پر دباؤ بھی کر سکتے ہیں اور اگر یہ دباؤ کچھ کام کرتا ہے تو آپ نئے رستوں پر قدم رکھ سکتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسا کہ پی ٹی آئی نے اپنے کام میں کوئی تبدیلی نہیں کی، اس لیے یہ ناکام رہے، سینیٹر کمران مرتضی کی ایسا کہنا جو کہتا ہے کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو آگے نہیں بڑھ سکتے، یہ بات ایک بار پھر تازہ کرتی ہے کہ جس سیاسی Leader کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ ہو رہا ہے، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو کیسے؟
اس سينيٹر کمران مرتضی نے جے آئی کی دوسری بار شریک ہونے پر تنقید کی ہے ،لیکن یہ رائے پزیر نہیں ہو سکتی،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھیں جے آئی کی دوسری بار شریک ہونے سے پہلے کیسے متعین ہو سکے؟ یہ سینیٹر کی بھی ایک عجیب گALT تھی،کیوں نہیں انھیں تھوڑا سا وقت دیکھا جاسکا؟
جے یو آئی کی دوسری بار سے شریک ہونے پر تنقید کرنے والے سینیٹر کمران مرتضی کو اس بات پر غور کریں کہ انھوں نے اپنی ایسی پوزیشن لی ہوئی جو ایسے سیاسی Leaders کو ناکام بنانے میں مدد دے گی۔
یہ سے یہ بات نکلتی ہے کہPolitics میں دباؤ کس کے لئے ہو رہا ہے، آگے بڑھنے کا جواب ڈیٹا نہیں دیتا، کیا انفرادی طور پر تنقید کرنا چاہتا ہے کہ وہ ناکام ہیں؟ لگتا ہے جس میڈیا کی یہ پڑھائی ہو رہی ہے آپ کو بھی ایسی ہی ناکامی کا شکار ہون گے
بغیر یقینات ہی یہ بات سچ نہیں ہوسکتی کہ ایسی حقیقت ہی موجود ہے جس پر انھوں نے تنقید کی ہو گی ،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے سوچا ہو گی لیکن ابھی تک کوئی اس بات پر یقین دिलاتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ کی طرح صحیح اورLogical رائے دی ہوگی
کیا یہ سربراہانہ پلیٹ فارم پر مبنی تنقید میں سینیٹر کمران مرتضی کی طرف سے پھیلائی گئی ناکامگی ہی تھی، یا انھوں نے توسیع کا ایک ایسا جھنکا بنایا ہے جس سے دوسروں کو اپنی طرف بھیج دیا ہے؟
اس طرح کی تنقید سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک ورکراور قیادت مطمئن نہ ہو، تو کسی بھی political Leader کو آگے بڑھنا مشکل ہوگا? یہ دوسری طرف سے بھی کامیابی کی بات ہے؟
سینیٹر کمران مرتضی کی یہ بیان میں وہی بات دیکھنی پڑتی ہے جس سے پاکستان کو دوسری بار بھی اپنے راسخ القوام کے لیے ٹکلا نہ ملے ۔
اس میڈیا کی بات تو اچھی ہے پھر بھی یہ بات کو لینے والا کوئی ایسا نہیں جو اس میں دباؤ کے نتیجے میں اپنے راسخ القوام پر سٹیڈ کر سکے
جی یو آئی کی جس رائے پر تنقید کرتے ہوئے سینیٹر کمران مرتضی کی بات تو دیکھنا اچھا تھا، لیکن ان کی اس رائے کو صحت مند سمجھنا مشکل ہے، ایسے میڈیا کے بیان سے یہ بات تازہ کرتی ہے کہ جس سیاسی Leader کو اپوزیشن الائنس میں شمولیت ہونے پر دباؤ بھی کر رہا ہے، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو کیسے؟