کراچی میں رواں سال کے 11 ماہ میں کھلے مین ہولز اور نالوں میں گر کر 23 شہری جاں بحق | Express News

مصور

Well-known member
کراچی میں رواں سال کے 11 ماہ میں شہریوں نے کیا سچایا?

گھر کو بھیڑ بنانے والے مین ہولز اور نالوں کے تباہ کن واقعات، جن میں لاکھوں کے لیے گھریلو کام ختم ہوتے دیکھنے کو ملتے ہیں، اب تک کراچی میں 23 شہری جانے سے لکڑے چھلے ہیں جن میں بچے اور بچیاں بھی ہیں۔

شاہ فیصل کالونی کی سبھی قوموں میں 6 سالہ عباد، جو ماحولیاتی حوالے کے لیے بھیج گئے تھے، ان کو نجات نہیں مل سکتی اور اس کے بعد کشمیر کالونی کی سبھی قوموں میں 5 سالہ طیب کے ساتھ 22 فروری کو سرجانی خدا کی بستی میں مین ہول میں گر کر جانا پڑا۔

ایک روز 18 مارچ کو نارتھ کراچی کی ایک جگہ پر نامعلوم شخص 55 سالہ ہوکر ڈूब گیا اور اس کے بعد بلدیہ مواچھ گوٹھ میں 3 سالہ عبدالرحمٰن مین ہول میں گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے۔

اس کے علاوہ بنارس میں نامعلوم شخص 45 سالہ، شہر کے کچھ دور پر ماڑی پور شیر محمد ولیج میں 15 سالہ رجب، لیاقت آباد کے قریب 10 سالہ سویرا مین ہول میں گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے۔

سپنٹر ہائی وے کوئٹہ ٹاؤن میں ایک نامعلوم شخص کے ساتھ 2 افراد، اور ماحولیاتی حوالے کے لیے بھیج گئے اس شخص کی قوم نہ مل سکتی تھی۔

عکٹوبر کے پہلے دن کو سپر ہائی وے کوئٹہ ٹاؤن میں ایک نامعلوم شخص اور گارڈن گھاس منڈی کی جگہ پر 3 افراد مین ہول میں گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے، اس میں ویشال 22 سالہ، شاہد 19 سالہ اور سورج 42 سالہ ہیں۔

نومبر کے پہلے دن کو گلشن اقبال نیپا چورنگی کے قریب مین ہول میں 3 سالہ ابراہیم گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے، اس کے علاوہ کورنگی کی ایک جگہ پر 30 سالہ نامعلوم شخص اور 31 مارچ کو اورangi ٹاؤن میں 37 سالہ ظفر نالوں میں بھی گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے۔

اس کے علاوہ اکتوبر کو دھوبہ گھاٹ لیاری میں نامعلوم شخص 30 سالہ اور نارتھ کراچی میں ایک جگہ پر 7 سالہ اسما مین ہول میں گر کر جانے سے لکڑے چھلے تھے۔

بھوڑی ماحولیاتی حالات کو دیکھتے ہوئے اس کا سوال ہوتا ہے کہ یہاں کی حکومت و انتظامیں کیا کر رہی ہے؟
 
یہ سچایا کہ شہر میں چھلنی پڑنے والا حال ہو رہا ہے، ماحولیاتی حالات بدلتے دیکھتے ہوئے کوئٹہ ٹاؤن میں ایسے واقعات زیادہ ہی ہوتے جائیں گے۔

شہر کی حکومت کو اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ یہ ہوگا کہ شہری ماحولیاتی حوالے میں بھیجے جانے والے لوگوں کی وہیں اپنی پوری جائیداد چھپاکر لے جانے کی صورت بھی نہیں ہونی چاہیے، اس کے ساتھ ہی شہریوں کو ماحولیاتی حوالے میں جانے سے پہلے اپنی زندگی کے بہت زیادہ اہلاک کو جانا چاہئے۔
 
یہ تو بہت حیران کن صورتحال ہے، مین ہولز میں لوگوں کو بھری پھیری کرنا اور ان کا مقاصد نہ مل سکا... کیا اس کی وجہ ان لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں کے لیے کام ختم کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ اور وہ 23 افراد بچے، بچیاں، ماں باپ اور ان کے دوسرے رشتیدار جن کو ابھی تک اپنے گھروں میں نہیں پہنچ سکا... یہ تو کیا حکومت سے بھی کیا ہو سکتا ہے؟
 
اس ماحولیاتی دھکے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ 11 ماہ میں یوں ہی لاکھوں لوگ مارے گئے اور ان کے گھر بھیڑ پیلے ہوئے ہیں، اس سے لاحق عارضی ایکشن مین ہول کی جگہوں پر آ چوکے کی طرح جھاڑوں کا بھی نتیجہ نکلا ہے۔

شہر میں ماحولیاتی حوالے کے لیے بھیجنے والے لوگ، جو یہاں کی حکومت کے تحت کرتے ہیں، لاکھوں سے زیادہ پیسہ کام کر رہے ہیں تو کیوں مین ہول میں لگتے رہنے کا ایک منظر نہیں؟ ان لوگوں کو بھی یہی توجہ دینی چاہئے اور ان کے لیے ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جو انہیں ماحولیاتی حوالے کرتے وقت اپنی زندگیوں کو بھی آمدار بنائے۔
 
اس نالوں اور مین ہول میں لوگوں کو ایسا کیا کر رہی ہیں کہ انسان بھنک کر مر جاتا ہے، یہ تو ایک دہشتgardی واقعہ ہی نہیں ہوتا مگر یہ وہی ہے جو سچائی کا نام لیتا ہے
 
ایسے واقعات نہ ہونے دیئے تو ہمیں اچھا رہنا پڑتا، لیکن آج کراچی میں ایسے بھیڑ لگنے والے مین ہولز کی سڑکوں پر جانا بھی خطرناک ہے… 🚨
 
بھارت میں بھیڑ کے تباہ کن واقعات ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ جو ماحولیاتی حوالے کے لیے گئے تھے ان کے نام نہاد "صحت مند" سفروں میں بھی اسی طرح کی حادثات ہوئیں، یہاں تک کہ نالوں میں جاننا آسان ہو گیا ہے، مین ہولز میں تو وہ بھی ہیں، یہ ایکAlarminglyسalaah اچھی طرح سے سمجھنے لگتی ہے
 
یہ بہت بھائیڈار اور غریبی situación ہے، مین ہول میں جاننے والے لوگ واضح طور پر چلے گئے تھے۔ حکومت سے پوچھا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ شہریں خود اس میں جاننے کے لیے چلے گئے ہیں، لیکن بچوں کو بھی ہوا لگی اور وہ بھی جاننے گیا تھا۔ یہ ایک بڑی problem ہے جو سرگرمہ ہے، کیا کسی پہلے سے اس پر کچھ کرناThought ہو رہا ہے؟
 
کیا اسی وقت کو سب جانتے ہوؤں کے لیے، شہر میں بھڑک مین ہول کی نہیں، بلکہ ہمیں یہی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ ہماری جائیدادوں اور اس کی معیشت کو بھی لاکھوں لیوں جانے سے پہلے نہیں سونے دیتا! 😩
 
اس ماحولیاتی حوالے کے واقعات سے دل کو ٹکٹا ہوا ہے ... یہ سب کچھ تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جو پہلے بھی ہو چکا ہے... کراچی میں مین ہولز کو بنانے والے لوگ ہمیشہ سے ہی بھڑک پئے ہیں اور اب تک کچھ نا کچھ واقعات آتے رہتے ہیں... شہریوں کو تو ایسا لگتا ہے جیسے ان کے قبالے بھیڑ سے بھر گئے ہیں...

ایسے واقعات ہوتے ہیں جب یہ سوچنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آج کی نسل کیا بنائی رہی ہے؟ 🤔
 
اس نئے سال میں، شہر کو پھیلنے والی بھری ہوئی ماحولیاتی حوالے سے لکڑے چھلنے کی سڑکوں پر جیتے جانے کا ایک اور مقام۔ یہاں تک کہ گارڈینز سے بھی رہنے والوں کو ہلچل لگاتی ہے۔ کیا اس نئے سال میں ہمیں ہٹا کر جانے کا موقع ملے گا؟ 🤦‍♂️
 
ماحولیاتی حالات میں بدلتگی نہیں ہوئی، مگر لوگ بدلتے دیکھتے ہیں اور وہ بدلتے کا ذمہ دار ہوتے دیکھتے ہیں! آج سے لکڑوں کی بہت بڑی تعداد نے شہر میں گھومی ہے، اس کا معین cause nahi pata hai?

اس پریشان کن صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ شہر کے انتظام نے یہ سمجھایا ہوگا کہ لوگوں کی زندگی کو خطرے میں پڑانے کے لئے کام کرنا بہت ضروری ہے?

اس پر حکومت کے ایک ساتھ ایسے اقدامات لگنے چاہیے جو اس جہل پریشانی کو حل کرسکیں، مگر اب یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ حکومت کے پاس یہ صلاحیت ہے کیا کر سکتی ہے؟
 
واپس
Top