ٹرمپ کے غزہ کیلئے امن منصوبے کی توثیق سلامتی کونسل میں پیر کو ووٹنگ ہوگی

تیندوا

Well-known member
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ کرے گی جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ میں فائر بندی کے بعد کے انتظامات کی منظوری ہے۔

امریکا نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں قرارداد کے مسودے پر مذاکرات شروع کیے تھے جس میں غزہ کے لیے ایک عبوری بورڈ آف پیس کا قیام ہوگا جس کی سربراہی ٹرمپ کے پاس ہوگی اور اس کا مینڈیٹ 2027 تک ہوگا۔

قرارداد میں رکن ممالک عارضی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس قائم کریں گے جو اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور غزہ کے غیر عسکری بنانے کے عمل میں حصہ لے گی۔

امریکا کے علاوہ مصر، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، اردن اور انڈونیشیا نے قرارداد کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وہ قرارداد کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی جلد منظوری چاہتے ہیں۔

دوسری جانب روس نے ایک متبادل قرارداد کونسل کے ارکان کو پیش کی ہے جس میں نہ تو بورڈ آف پیس کے قیام کی منظوری شامل ہے اور نہ ہی غزہ میں کسی بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کی تجویز موجود ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ اس کا مسودہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے لیے 2 ریاستی حل کے اصول کو تسلیم کرتا ہے جبکہ امریکی مسودے میں اس کی واضح شمولیت نہیں ہے۔
 
یہ قرارداد ایسی ہوگئی ہے جو سارے ممالک کو ایک دھنی سے لے کر آخر تک کھینچ رہی ہے، تو چاہیں وہ امریکا سے مل کے یا روس سے، پھر بھی یہ توثیق سے زیادہ ایک سیاسی معاملہ ہے جو اس وقت تک مہیا نہیں ہوگا جب تک اسرائیل اور فلسطین کے درمیان وہ راز نہیں ہوتا جو سب کو چاہتے ہیں۔
 
امریکا کی بھنچکے ہوئی بات تو توثیق پر ووٹ کر رہی ہے لیکن یہ کیا غزہ امن منصوبے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک نئی امانت کی کامیابی کا کوئی ذریعہ ہے؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فائر بندی کے بعد کے انتظامات میں مصر کیسے شامل ہوگا، اورTurkey کی رائے کو کیا آپشنل اسٹیبلائزیشن فورس کا انکشاف کرسکے گا؟ Russia کا proposal وہی تھا جو US سے قبل کیا گیا تھا، لاکین کچھ دیر سے ہوگی اور غزہ کی شہدت اس وقت تک ہو سکی گی جب تک یہ کامیابی نہ ہوگی۔
 
منظور مقالے میں ہونے والے کچھ تبدیلیاں ایسی ہوگئی ہیں جس سے غزہ امن منصوبے کی توثیق ہو سکتی ہے تاکہ انفرادی سرگرمیوں کو روکنے کا ایک یقینی طریقہ بن سکا۔ امریکی صدر نے یہ وعدہ دیا ہے کہ غزہ کے لیے ایک عبوری بورڈ آف پیس قائم ہوگا اور اس کا سربراہی امریکا پر سکتا ہے۔

لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہوگا جب روس نے بھی اپنی متبادل قرارداد پیش کی ہے؟ اس میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس قائم کرنا شامل ہے جو اسرائیل، مصر اور فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی پر کام کرے گی۔

میری رائے میں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ایسا ہونا چاہیے جس سے غزہ کے غیر عسکری بنانے میں اچھا نتیجہ باضابطہ طریقوں سے ہو۔ پوری دنیا کو اس سے متاثر رہنے والا دیکھنا بہت ضرورी ہوگا
 
ہو گا تو یہ تو ایک بڑا کامیاب منصوبہ، اور یہ تو اسرائیل اور فلسطین دونوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن واضح طور پر اس پر بات چیت کرنا جاری ہے، ہمارے پاس یہ تو دوسرے ممالک کا خیال نہیں کیوں نہیں، مگر ان میں سے کچھ بھی ایسی صلاحیت کو تسلیم کرنے والے ہیں جو اس منصوبے کو یقینی بنائیں گی 🤞
 
اس وقت کیا ہوا ہے وہ ہے کہ اقوام متحدہ میں توثیق پر ووٹ کرنے والی سلامتی کونسل پیر ایک غزہ امن منصوبے کی توثیق سے متعلق قرارداد پر ووٹ کرے گی جو اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ میں فائر بندی کے بعد کے انتظامات کی منظوری دیتی ہے۔

یہ توثیق ایک بڑا کھرٹا ہے اور اس پر مختلف ممالک کے Stand لگے ہوں گے، جیسے مصر، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، اردن اور انڈونیشیا جو نے اس پر فوری منظوری کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب روس نے ایک متبادل قرارداد پیش کی ہے جس میں بورڈ آف پیس اور بین الاقوامی فورس کی فوری تعینات کو شامل نہیں کیا ہے۔

اس پر ہمارا خیال ہے کہ یہ توثیق اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کے لیے ایک بڑا اہم قدم ہوگا۔ اگر اس پر صاف واضح Stand لیتے ہیں تو یہ منصوبہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے راستے میں ایک اہم پہلو ہوگا۔
 
سفید روشنی کی ایسی بات ہوتی ہے جو صبر کرتے ہوئے ہارنا ہمیشہ زیادہ تھوڑی ہے… اور اب یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے! امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ توثیق پر ووٹنگ کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک اچھی بات کی ہے… اس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان دو سالہ جنگ سے بعد کے انتظامات کی منظوری ہے جو ایک بڑا اہلقدار کाम ہوگا… 🌟
 
یہ تو دوسرے دن اٹھ کر کہا کہ جو لوگ گزشتہ چار سال سے غزہ پر زور کرتے رہتے ہیں انھیں اب یہ جاننا چاہیے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں بھی ایسے مقامات ہوتے ہیں جہاں سے فوری حل نہیں مل sakta. تو یہ قرارداد پر امریکہ نے اس گھروں کی سرجری کر دی ہے کہ وہ غزہ میں ایک غیر عسکری صورتحال چاہتے ہیں اور یہ قرارداد انھوں نے باہم تھین رکھی ہے.
 
دھن سے! یہ بات صاف ہے کہ عالمی سلامتی کونسل نے اسرائیل اور حماس کے درمیان توثیق کرنی والی قرارداد پر ووٹ کر لیا ہے، جو فائر بندی سے بعد کے انتظامات کی منظوری دیتا ہے। یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو بورڈ آف پیس کی سربراہی کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور یہ مینڈیٹ 2027 تک چلے گا۔

دوسری جانب، مصر، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، اردن اور انڈونیشیا نے قرارداد کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا ہے، جس میں رکن ممالک عارضی بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس قائم کرتی ہے جو اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور غزہ کے غیر عسکری بنانے کے عمل میں حصہ لیتی ہے।

اب رूस نے ایک متبادل قرارداد پیش کی ہے جس میں بورڈ آف پیس کے قیام کی منظوری اور غزہ میں بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کے واضح منشور موجود نہیں ہیں۔

اس دھن کو دیکھتے ہوئے، یہ بات بھی صاف ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی صورت حال ایک اچھی واضح حل سے نکلتی ہے۔ اس دھن کو پوری دنیا کا ध्यान رکھنا چاہئے، خاص طور پر یہ بات کو نظر انداز کرنا ہی نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کے درمیان دھمکیوں اور حملوں کی تیز رفتار سرگرمی آ رہی ہے!

🚨

دھن سے! یہ بات صاف ہے کہ عالمی سلامتی کونسل نے اسرائیل اور حماس کے درمیان توثیق کرنی والی قرارداد پر ووٹ کر لیا ہے، جو فائر بندی سے بعد کے انتظامات کی منظوری دیتا ہے। یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو بورڈ آف پیس کی سربراہی کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور یہ مینڈیٹ 2027 تک چلے گا۔

دوسری جانب، مصر، سعودی عرب، ترکیہ، قطر، متحدہ عرب امارات، پاکستان، اردن اور انڈونیشیا نے قرارداد کی فوری منظوری کا مطالبہ کیا ہے، جس میں رکن ممالک عارضی بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس قائم کرتی ہے جو اسرائیل، مصر اور تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی سکیورٹی اور غزہ کے غیر عسکری بنانے کے عمل میں حصہ لیتی ہے।

اب رूस نے ایک متبادل قرارداد پیش کی ہے جس میں بورڈ آف پیس کے قیام کی منظوری اور غزہ میں بین الاقوامی فورس کی فوری تعیناتی کے واضح منشور موجود نہیں ہیں۔

اس دھن کو دیکھتے ہوئے، یہ بات بھی صاف ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی صورت حال ایک اچھی واضح حل سے نکلتی ہے۔ اس دھن کو پوری دنیا کا ध्यان رکھنا چاہئے، خاص طور پر یہ بات کو نظر انداز کرنا ہی نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کے درمیان دھمکیوں اور حملوں کی تیز رفتار سرگرمی آ رہی ہے!

📈

امریکی وفاقی ایکسچینج کی نتیجے میں 2025 میں 1،700 ڈالر کا فائنل آرٹیکل اسکریننگ نظام شروع کرنا پڑے گا، جو دوسرے ممالک کے لیے بھی اپنی وفاقی ایکسچینج کی اہلیت کو موثر طریقے سے چلانے کے لیے ایک اہم کہنے والا ہوگا۔

اس دھن کو دیکھتے ہوئے، یہ بات صاف ہے کہ بین الاقوامی معاشی تعلقات میں ایسی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو کہ بہت اچھی سے بہت اچھی ہو سکتی ہیں۔
 
یہ تو اچھا نہیں ہوگا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک دو سالہ جنگ کے بعد کسی کو بھی فائر بندی سے متعلق قرارداد پر ووٹ کرنے کی امید کریںگی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تو غزہ امن منصوبے کی توثیق پر ووٹ کرنا ہوتا ہے اور یہ سب اس کے لئے ایک بڑا پیغام ہوگا۔ لیکن یہ سوال ہے کہ لوگوں نے ان منصوبوں سے جو لابھیں وہ کیسے لے گا؟ اور ان منصوبوں کو کس طرح پورا کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ یہ بات تو ابھی تو ہمیں معلوم نہیں۔ 🤔
 
سفيد شاداب! یہ توحید کے نام پر ایک سہارا ہوگا اور اگر دوسرے ممالک اسے منصوبہ بناتے ہیں تو ایسی صورت میں اسرائیل اور حماس کی جنگ ختم ہوجائیگی... 😊
 
یہ عالمی سلامتی کونسل کا ایک بڑا فیصلہ ہوگا جس سے فلسطین کی صورتحال میں ایک نئیHope Kiyan Jaa rahi hai 🌟 اور اسرائیل کے لیے بھی ایک فراہمی کا موقع مिल رہا ہوگا. اگر انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کی مندرجہ ذیل سرحدی علاقوں میں تعیناتی کیا جائے تو وہ ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے.
 
ایس لگتا ہے کہ دنیا اب بھی ایسا ہی چل رہی ہے جیسے پچاس برس قبل، غزہ امن منصوبے سے متعلق بات چیت کرنا اور دوسرے ممالک کے زور پر اپنے ارادوں کو بھیڑنا ہمیں نئی سے نئیproblem ka samna karte rahe hain 🤔

امریکا کی طرف سے پیش کردہProposal میں ایسا لگتا ہے کہ وہ غزہ میں ایک اور ہلچل بھی آئے گی، نہ ہی فلسطینیوں کو فوری تعیناتی کی تجویز اور نہ ہی اسرائیل کے لیے اس کی منظوری، یہ تو واضح ہے کہ دنیا میں پتے بدلنے والا کھیل بھی ابھی نہیں ختم ہوا ہے 😕
 
یہ تو خفیہ سلوک ہے کہ ایک طرف अमریکا یہ سچائی بتاتا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے کی حمایت کر رہا ہے لیکن دوسری طرف اس پر امریکی صدر کے معیار کے مطابق یقین نہیں کیا جا سکتا اور روس نے بھی اپنا مشاہدہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی اقدامات کی واضح شمولیت فلسطینی معاملے میں موجودہ حل کو تسلیم کرتی ہے جس سے یہ بات پتہ چل سکتی ہے کہ اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کے لیے اس پر معیار بدل رہا ہے۔
 
امریکے صدر کے غزہ امن منصوبے پر ووٹ کرنے سے پہلے کی توثیق یہیں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک اور ممالک کی فوری منظوری چاہیے؟ ایسے میں اس صورت حال کو حل کرنے سے قبل کھلی ملاقات اور مذاکرات ضروری ہیں، ایسا کہ دوسرے ملک بھی انہیں سمجھیں
 
امریکے نے غزہ امن منصوبے پر توثیق دینے کا فریق کیا ہے جس سے کوئی نتیجہ نہ نکلا، اب ایک نئی قرارداد پر ووٹ کر رہا ہے۔
 
واپس
Top