امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تازہ دورہ سعودی عرب کے بعد واشنگٹن سے تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور اس کا مقصد اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانا ہے، تاہم، ایسا نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی مناسب راستہ نہیں۔
ابتدائی طور پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ ٹرمپ کے دورہ سے اسرائیل کی طرف تعلقات معمول پر لانا میں کوئی خاص تیزی آئے گی، لیکن اچھی طرح سے مطلع ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ ریاض نے کچھ سخت شرائط عائد کردی ہیں۔
سعودی عرب کا مقصد اسرائیلی ساتھ تعلقات Normalization کے لیے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنا ہے جس میں امریکی فوجی تحفظ اور سرمایہ کاری شامل ہو گا، تاہم، یہ معاہدہ ایسی حد تک محدود ہے جو کہ مستقبل میں اسے مکمل بنانے کی اجازت دی جائے گی۔
ایکDefense agreement کو ایک political معاملے میں تبدیل کرنا تھا، تاہم، یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کی بہت حد سے اچھائی نہیں ہوسکتی ہے جس سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے میں کوئی خاص پیش رفت ہو سکے۔
ریاض کی ایسی شرط کی عائد کروائی گئی ہے کہ یہ معاہدہ کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بدلے فلسطینی ریاست کے قیام پر مبنی نہ ہو جائے۔
سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کے دوران، انہوں نے کہا تھا کہ وہ “کسی بھی ممکنہ رسمی تعلقات کو اس وقت تک آگے نہیں لے گے جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی قابلِ اعتبار راستہ موجود نہ ہو”۔
اس سلسلے میںSaudi حکام نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن اور تل ابیب کو ایسے معاہدے پر دستخط کرنا چاہیے جس کی واضح شرائط رکھی ہوں جس سے اسرائیلی ساتھ تعلقات Normalization کے لیے ایک political معاملہ بنایا جاسکے، تاہم، یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ ایک مشکل کارروائی ہے جو ساری دنیا میں انحصار کر رہی ہے۔
اس معاہدے نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین تعلقات کی بات چیت کو کبھی بھی آگے نہیں لے گا، حالانکہ اس کی ضرورت ہو سکتी ہے. 2020 میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں $3.8 بلین کا فوجی اعزاز شامل تھا، جس سے فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں اس معاہدے کو ختم کرنے کی صلاحیت امریکی فوجیوں کو مل گئی ہو گی.
اس معاہدے سے اسرائیل کے لئے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنا اس کے لئے ایک بڑی رچھ ہو گئی ہے.
سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کی انہوں نے دی گئی شرائط کا مطالعہ کرنا ضروری ہے. اس معاہدے سے Israel اور Saudi Arabia کے تعلقات بھی آگے بڑھ گئے ہوں گے، تاہم، ایک غیرسنجیدہ معاہدے پر دستخط کرنا اسرائیل کو بہت کھلی حوالہ دے گا.
یہ معاہدہ Israel اور Saudi Arabia کے تعلقات کی بات چیت کو ایک سیاسی معاملہ بنایا ہو گا، تاہم، اس سے فلسطین کے قیام کے حوالے میں کسی نہ کسی جگہ کو ختم کرنا ضروری ہو گا.
اس معاہدے سے Israel اور Saudi Arabia کی تعلقات بھی آگے بڑھ گئی ہوں گی، تاہم، ایک غیرسنجیدہ معاہدے پر دستخط کرنا اسرائیل کو بہت کھلی حوالہ دے گا.
اس معاہدے سے Israel اور Saudi Arabia کے تعلقات بڑھ جائیں گے، تاہم، ایک غیرسنجیدہ معاہدے پر دستخط کرنا اسرائیل کو بہت کھلی حوالہ دے گا.
سعودی عرب کی ایسی شرط کیسے رکھی گئی ہے، جس سے اسرائیل سے تعلقات Normalization کے لیے ایک political معاملہ بنایا جا سکے؟ یہ بات واضح نہیں ہوگی جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی قابل اعتبار راستہ نہیں۔
ٹرمپ کی اسرائیل کی طرف تعلقات Normalization کے لیے واشنگٹن سے بات چیت کرنا تو ایکFair dinkum move ہے, lekin yeh baat to khaas hai ki Saudi Arabia ka mukadma jahan tak nahi chalta! Yeh baat vaziat hai ki Israel se relationship Normalization karne ke liye koi sahi route nahi hai jab tak Palestine state ka qiyam na ho sake!
Saudi Arabia ka defense agreement ek political issue banane ka try hai, lekin yeh bhi sahi nahi hai. Yeh baat vaziat hai ki Israel se relationship Normalization karne ke liye koi khas progress nahi ho sakta!
Yeh to wajah hai ki Saudi Arabia ne kuch bhi conditions rakhi hain, jese ki Israel ke saath relationship Normalization karne ke badle Palestine state ka qiyam na hona. Yeh baat vaziat hai ki is agreement ko ek political issue banane ka try hai!
Lekin, Saudi Arabia ka mukadma jahan tak nahi chalta! Toh, Israel se relationship Normalization karne ke liye koi sahi route nahi hai jab tak Palestine state ka qiyam na ho sake!
اس معاہدے کی جھلکیاں ملنے لگی ہیں تو یہ بھی تھوڑی سی حد تک اچھائی ہوسکتی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات Normalization میں ایسا کوئی راستہ تلاش کیا جاسے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کی بات نہ آئے، لیکن یہ معاہدہ واضح طور پر فلسطینی ریاست سے تعلقات بنانے پر مبنی ہے۔
اس معاہدے میں کوئی ایسا راستہ نہیں ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے بھی کچھ نہ لگے، یہ تو بھارتی شہزادہ انویرس کو لاکھوں ڈالر میں ملنے پر کبھی نہیں ملا گئا، اس کی بدولت فلسطینی ریاست سے تعلقات بنائے جا ر۹ے۔
یہ بات بھی تھی کہ میں کوکنگ شو نے کیا ہے؟ جس کی اور کیا؟ آپ جانتے ہو گے، یہ کوئی بھی شہری جو لاکڈ ہوا سے آنے والا ہے وہ اپنے شہر کی فوج اور پولیس کے سامنے گویا ایک نوجوان طالب علم ہو جاتا ہے، آپ کو یہ کس بات سے خوشی ہوتی ہے؟
بطور حقیقت واشنگٹن اور تل ابیب کی یہ کوشش ایک راز پھیلانے کی ہو سکتی ہے، میں توجہ دیجے کے لیے آپ کو کچھ کھانا پکانا ہو گا؟
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ریاض نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات Normalization لانے کی یہ بات تو چہرے پر لگی ہوئی ہو، لیکن اس میں ایک مشکل راز ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی مناسب راستہ نہیں، اس بات کو یقیناتھا کہ اسرائیل اور امریکا کی توجہ اس پر مرکوز ہوگی۔
اور اب واشنگٹن سے تعلقات Normalization لانے کے بارے میں بات کر رہے ہیں، تاہم، یہ بات تھodi عجیب ہے جیسے اس معاہدے پر دستخط کرنا تھوڈا اچھا نہیں ہوسکتا جس سے اسرائیل سے تعلقات Normalization لانے میں کوئی خاص پیش رفت ہو سکے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کی ایسی شرائط پر دستخط کرنا چاہیے جو فلسطینی ریاست کے قیام سے محو نہ ہونے دیتے ہیں، جس سے اس معاملے کو ایک political معاملہ بنایا جا سکے۔
تمھارا یہ فیصلہ تو بہت اچھا ہے، لیکن وہ ایک defends agreement کو ایک politicsal maqamle me convert karna tha, حالانکہ Saudi Arab nai cheezin kiya hai, jese ki America ki army support aur investment, lekin ye defence agreement kaafi achi nahi hai jo isse israel ke saath relation normalisation karne mein koi khass progress hoga.
Faisla isme Israel ko sath milana thoda mushkil lag raha hai, Saudi Arabia ko bhi pehle Israel se milna chahiye, aur fir bas America ki madad leni padegi, ye to bura nahi hai?