سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ دیا | Express News

عقلمند

Well-known member
پاکستان کے سپریم کورٹ میں ایک اور غیر متعذّر کارروائی ہوئی ہے، اس بار چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھنا پڑا۔ جس्टس صلاح الدین پنور نے ان کے خلاف ایک منعقدہ خط بھی کیے ہیں جس میں انھوں نے فل کورٹ اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے، جس سے آئینی ترمیم کا شق وار جائزہ لیا جا سکے گا اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کو بھی مشاورت میں شامل کیا جا سکے گا۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے خط میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمیشہ سے سپریم کورٹ کی آئینی ترمیم کا تحفظ کرنا پڑتا رہا ہے اور ایسا کھل کھل کے نہیں ہوتا، بلکہ یہ جائزہ اس کی فیصلہ سازی کی ہمت کو بھی یاد دلاتا ہے اور عوامی اعتماد کو بچاتا ہے۔

انھوں نے خط میں کہا ہے کہ تاریخ بھی آسان نہیں بلکہ ہماری فیصلہ سازی کی ہمت کو یاد رکھے گی اور عوامی اعتماد کو بچانے کے لیے فوری فل کورٹ اجلاس بلایا جائے گا، اس سے آئینی ترمیم کے شق وار جائزہ لیا جا سکے گا اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کو بھی مشاورت میں شامل کیا جائے گا۔
 
یہ ہر و॰ ہے، آج بھی اس بات پر مینڈیٹ بنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسا کیا جائے گا؟ سرفراز آف پلازیرا کو چیلنج کرنے کا یہ فیصلہ جھلک دے رہا ہے اور مینے انھیں پہلی وار بھی ناقد تھا، لیکن اب تو اس کی آواز کو سنی نہیں دیا جا سکta. جسٹس صلاح الدین پنور نے فل کورٹ اجلاس بلانے کی واقعیت پر زور دیا ہے، لیکن مینے سوچا ہے کہ اس سے پہلے کیا ہو گا؟ ایسی صورتحال میں ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ایسا کیا جائے گا اور اس کے نتیجے کی پیداوار کیا ہوگی؟
 
ایم آئی ہلچل، ایسے میں چیف جسٹس کو خط لکھنا پڑا اور اب جسٹس صلاح الدین پنور نے بھی بڑا خط بھیجا ہے، یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ ایسے میں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ ہر بات سے بچنا اور آئینی ترمیم کو صحیح طریقے سے منظر عام پر لانا ہوتا ہے، نہ کہ اس پر غور کرکے جیسے یہ فوری فیصلہ لیا جا رہا ہے۔

توجہ دینی ایسے باتوں پر بھی چاہئے کہ آئین کو پھانسی نہ دی جائے اور ان قانون ساز منصوبوں پر غور کرکے فیصلہ لیا جا رہا ہے، یہ سب کچھ عوام کی رائے لے کر ہونا چاہئے۔

اسے دیکھنے کو ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسے تنازعات ہونے سے آئین کے خاندان پر ایک بار پھر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور عوامی اعتماد کا نقصان ہوتا ہے۔
 
یہاں ایک ٹرول برے کے بھی نہیں ہوتے، یہاں سے فیصلہ سازی کی جانے والی کوئی بھی بات، کسی بھی کارروائی میں کوئی نہ کोई معاملات پیش آتے ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے، سوشل میڈیا پر سب کو دیکھنا پڑتا ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ سڑک پر گرانے والا ملاپ نہیں کرتا، چھوٹو چھوٹے معاملات کو بڑھاو لگا دیتا ہے اور ڈائریکٹری بھی نہیں رہتا، ایسا کہنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ تو ایک ایسی پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ اپنی اپni باتوں کو چھپایا کر دیتے ہیں، کتنے معاملات پر تبصرہ کیے بिन اس میں اپنا رولف واپس لے لو، یہاں سے نکل کر کسی اور پلیٹ فارم پر چلو!
 
اس کارروائی سے ہمaraa darazaa hai, ایسا محسوس ہوتا ہے جو پکڑا جانا ہوں اور پھر آنٹی ٹیسٹ کیا جائے۔ ایسا نہیں، یہ انساف کرنا ہوگا، لاکھ لاکھ سے ہمARAa daraza hai ہوتے تھے اور اب بھی ہیں
 
اس وقت کچھ بات نہیں کی جا سکتی، آپنے اپنے جسٹس کو یہ بتایوں کہ انھوں نے بھی انکی مشاورت میں جانا پڑega, آپ کو یہ بات معلوم ہوگی کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی ایسی کارروائی ہونی چاہیے جس سے آئینی ترمیم کا شق وار جائزہ لیا جا سکے گا, اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے گا، انھوں نے بھی ایسا ہی کہنا ہوگا کہ فل کورٹ اجلاس بلانے سے عوامی اعتماد کو بچایا جائے گا, لیکن یہ بات تو واضح ہوگی کہ آئینی ترمیم کی شق وار جائزے میں انھیں بھی اپنی جان لگائی جا سکتی ہے
 
ایک بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی ترمیم پر توجہ دینے سے اس وقت کی سیاسی صورتحال کو بھی ایسا ہی سمجھا جا سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا اور Future bhi hoga. 🤔
 
اس خبر پر توجہ دینے کے بعد میں مجھے یہ سوچنا ہوا کہ وقت کی وہی لازمی طور پر کھیل دیتی ہے جسے ہم نہیں چاہتے دیکھتے ہیں، اور یہی صورتحال سپریم کورٹ کی آئینی ترمیم کا حال ہے، پہلے ہو گیا تھا اور اب وہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں سے نکلنا مشکل ہے، مگر یہ بات پوری طرح انکار نہیں ہو سکتی کہ ہمیں ایسے حالات میں ہمیشہ آگاہ رہنا چاہیے اور کسی بھی بدلتے ہوئے صورتحال پر توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 
اس معاملے پر مجھے ان شعبوں میں بھی دلچسپی ہے جو آئینی ترمیم سے متعلق ہیں، جیسا کہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن اور عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے کام کو بھی دیکھنا ضروری ہے، اور اس میں بھی چیف جسٹس یحیی آفریدی کو ایک نئا موقع ملا ہوا ہے۔
 
چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھنا پڑا ہے، یہ بات تو اتنی اچھی نہیں؟ وہ لوگ جو ان کی کارروائیوں پر تلاعلی دیتے ہیں اور ان کے خلاف خط لکھتے ہیں، وہ تو چیف جسٹس کے ساتھ ہی پہچان لیجئے، ایسا تو بھی ہوگی، ایسا ہونا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے جیسے ان کا مقصد اپنی پوری زندگی کو اس کارروائی سے منسلک کرنا اور اس پر ہمیشہ زور دینی۔ وہ لوگ جو ان کی باتوں پر تلاعلی دیتے ہیں، انہیں بھی اپنی باتوں پر چلتے ہوئے رہنا چاہیے، کہ وہ لوگ جو اس کی کارروائی میں نہیں شامل ہوتے ان کی باتوں پر تلاعلی دیتے ہیں وہ بھی اپنی باتوں پر چلتے ہوئے رہنا چاہیے۔

اس کے ساتھ اس بات کی بھی بات کرنی چاہئی، وہ لوگ جو ان کی کارروائی میں شامل ہوتے ہیں ان کی باتوں پر تلاعلی دیتے ہیں، انہیں بھی اپنی باتوں پر چلتے ہوئے رہنا چاہیے۔
 
بہت سارے لوگ اس بار ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ پابند قانون کی پالیسیوں پر تنقید کرنا بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس صلاح الدین پنور کی بات کو سمجھنا اچھا ہے، اس نے دیکھا ہے کہ قانون کی ترمیم پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور ایسے میٹنگ کا منصوبہ لگایا گیا ہے جو پابند قانون کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔

کہتے ہیں جیسے ایسے نئے شعبے بننے کو دھماکہ ڈالنا پڑتا ہے تو ان کا ایسے طریقے سے موقف لیا جا سکے جس میں قانون کے تحفظ کی بات کی جائے اور عوامی اعتماد کو بھی یہ سمجھایا جا سکے کہ یہ کیسے ہوا، اس کے لیے فوری اجلاس اچھی رہتی ہیں۔
 
واپس
Top