سکول سے 25 طالبات اغوا

ویب ماسٹر

Well-known member
نائجیریا کی ریاست کیبّی میں سرکاری گرلز سکول پر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے وائس پرنسپل کو قتل اور 25 طالبات کو اغوا کر لیا ۔ اس واقعے سے قبل جبکہ اس وقت بھی یہ مقام سرجانی طور پر ایسے افراد کا نشانہ بن رہا ہے جو اپنے نئے سیاسی حلف کی دھمکی میں ہوتے ہیں۔

غیرمہمی کے بعد یہ واقعہ ابھرپور ہوا جب ایک بھاری اسلحے سے لیس مسلح افراد نے صبح تقریبا 4 بجے گاؤں پر حملہ کر کے وائس پرنسپل حسن یعقوب مکوک کو قتل کیا اور 25 طالبات کو اغوا کر لیا۔

اس واقعے کے بعد گاؤں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بھاری مشکلوں کا سامنا ہو رہا ہے جس میں انڈین اور بین الاقوامی محققین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس واقعے سے پہلے 2014 میں شمال مشرقی شہر چیبوک سے بوکو حرام نے 270 سے زائد طالبات کو اغوا کیا تھا جن میں سے کئی آج تک واپس نہیں لوٹ سکے۔

اس واقعے سے پہلے اس گاؤں کی سیکیورٹی پر بھاری نقصان دہ اثرات تھے اور یہاں کی شہری جگہوں میں ہسپتال اور دیگر بنیادی خدمات کا انتہائی کم فائدہ اٹھانا پڑتا تھا۔ اس سے واضح ہے کہ یہ واقعات اس گاؤں کے حالات کی جسمانی حقیقت کو چھوٹا کر رہے ہیں اور اس گاؤں میں مسلح حملوں سے لڑنے والے لوگوں کی دائمی تکلیف کا شکار ہوئے ہیں۔
 
یہ تو ایک بھی گھنٹی ہر جگہ ہی سیکیورٹی کے بارے میں مسائل پیدا کر رہی ہے… اس واقعے نے 25 طالبات کو اغوا کیا ہے… اور وائس پرنسپل کو قتل کر دیا ہے… یہ دیکھنا بہت دہری ہے… لیکن اس پر پورا فائدہ نہیں اٹھ سکتا…اس گاؤں کی سیکیورٹی پر ان کے حملوں نے خاصا نقصان پہنچایا ہے …سہولت کے مواقع میں بھی اس طرح کے واقعات آرہے ہیں… لوگ اٹھ کر نہ رہتے ہیں… یہاں تک کہ ایک بچے کو ملاپ کرنا مشکل ہوجاتا ہے …اب اس گاؤں کی ایسا ہی حالات ہوگئے ہیں جیسے 2014 میں بوکو حرام نے چیبوک سے 270 سے زائد طالبات کو اغوا کیا تھا… اور اب پھر وہی واقعہ ہو رہا ہے…
 
یہ واقعات ایک گھینٹے میں پھیل گئے ہیں اور اس گاؤں کی لوگ بے غضب ہیں۔ وائس پرنسپل حسن یعقوب مکوک کا قتل ایک شدید واقعہ ہے جس کی وجہ سے ابھی ان کے گاؤں میں بھی پھیلنے والے پربھو کو روکنا مشکل ہوگا. مگر یہ بات تو صاف ہے کہ یہ واقعات اس گاؤں میں بھی ایسی تلافی کی وجہ سے ہوئے ہیں جس کا کوئی منصوبہ نہیں ہے.
 
جس واقعے کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک حقیقت سے بھرپور واقعہ ہے جو کہ نائجیریا میں طالبات کی زندگی کو خطرہ میں پھیلانے والے لوگوں کے منزل پر ہے۔ یہ بات تو واضع ہے کہ اس گاؤں کی سیکیورٹی کا حالہ بہت خراب تھا، لیکن ہر سال کسی نہ کسی جگہ حملوں اور اغوا کرنے والوں کے واقعات دیکھنا پیڑھا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو خود کو بھگتنا پڑتا ہے جس سے وہ اپنے بیٹوں کو بچایا کر سکتی ہے لیکن یہ بات تو اس واقعات سے صاف نکلتی ہے کہ میرے لئے یہ ایک انتہائی مشکل صورت حال ہے جو کوئی بھی ماہر یا رکھنوال کو حل کر سکے گا۔
 
بھاگتے تھے اس گاؤں میں ایسے مقامات پر حملوں سے لڑنے والے لوگ کتنے دیر سے اٹھ رہے ہیں؟ یہ واقعہ واضح ہے کہ یہ گاؤں اس قدر خطرناک ہے کہ ایسا واقعہ آ جاتا ہے جو کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔

اس سیکٹر میں وائس پرنسپل کی جان اور 25 طالبات کو اغوا کرنے کا یہ واقعہ ایک بدترین واقعے کی لند ہے۔ یہ بھی غلطی نہیں کہ اس گاؤں میں بھی بہت سی شہری جگہوں پرHospital اور دیگر بنیادی خدمات کا انتہائی کم فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔

ایسے نہیں کہ یہ واقعہ اس گاؤں کی سیکیورٹی کو دیکھتے ہوئے چلنا چاہئے بلکہ اسے بھی اس سے زیادہ خطرناک سمجھنا چاہئے۔

اس گاؤں کی یہ واقعات اس کے حالات کو تھوڑا سا کم کر رہی ہیں، واضح ہے کہ یہ گاؤں دائمی طور پر مسلح حملوں سے لڑنے والے لوگوں کی تکلیف کا شکار ہوا ہوئے ہیں۔
 
ہر گھنٹے نوجوانوں اور بچوں کی جان کی سaza ہوتی جارہی ہے، یہ تو حقیقت میں ایک دہشت گرد حملے کا مظاہر ہے لیکن اس کے بعد کی سایس کی تلافی بھی نہیں کی جاسکتी। اس گاؤں کی فوجی اور غیر ملکی مدد سے بھی سیکیورٹی بڑھائی جا سکتی ہے تو یہ تو ایک طویل عرصے میں کچھ نتیجہ دے سکتی ہے۔ لہذا اس واقعات کی جسمانی حقیقت کو سمجھ کر بھی یہ سائنسداروں اور فوجیوں کو ایک پوزیشن بنانے کی ضرورت ہے کہ انہیں یہ جانتے ہو کہ کیسے اس گاؤں میں لوگوں کی جانا بچائی جا سکتی ہے اور اس سے ان لوگوں کو تکلیف دہ حملوں سے لڑنے کی طاقت ملیں۔

~ 💔
 
اللہ تعالیٰ ان جگہوں پر شاندار ہو، جہاں ایسے لوگوں کو پورے دن وائس پرنسپل کے ہاتھ سے باتیں کرنا پڑتی ہیں اور اب انہیں بھی مار ڈالنے والا ہو رہا ہے، یہ ایسا کیسا ہو گیا تھا کہ اب وائس پرنسپل اور طالبات دونوں کو ایک ہی وقت میں مار ڈالا جانا پڑتاجوں نہیں۔ یہ ساتھ ہی ان گاؤں کے لوگوں کی زندگی بھی پھوس دے رہا ہے، جو اب وہی گناہ سزا دیتی ہے جو اس نے توڑ کر دی گئی تھی۔
 
اس واقعے پر پھر سے بات کر رہے ہیں، یہاں تک کہ یہ گاؤں اس جیسا نہیں ہو رہا! یہاں تک کہ وائس پرنسپل کو قتل کرنے والے نے ایک بھارے اسلحے سے لیس ہونے کی صورت میں، پہلے تو بھی ہوا تھی کہ یہ گاؤں ایسا ہو رہا ہے جس کے بعد اس سے نجات حاصل کرنی مشکل ہوگی! ابھی 2014 میں یہی واقعہ ہوا تھا، تو کیا اب اس گاؤں کی سیکیورٹی پر بات نہیں کی جا سکتی?

اس وقت یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ واقعات اس گاؤں کے حالات کو واضح کر رہے ہیں، جیسا کہ شہری جگہوں میںHospital اور دیگر بنیادی خدمات کا انتہائی کم فائدہ اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ گاؤں کی سیکیورٹی پر بھاری نقصان دہ اثرات تھے اور ابھی ہی وہی شہری جگہوں میں آدھا اور نصف کھال پڑتے ہیں!
 
اس واقعے پر یہ غلطی نہیں کہ اس سے پہلے چیبوک میں بھی ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک اس گاؤں پر اتنا دباؤ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ بھی انچارن نہیں کہ اس گاؤں میں کوئی بھی ادارہ یا فیکٹری اپنی سرگرمیوں کے دوران سیکیورٹی کو بھی نہیں کہا، یہ سب ایک دھمکی ہے کہ اس گاؤں میں کسی کو بھی اچھا نہیں کرنا چاہئے۔
 
کیبّی کی یہ حادثت بہت گھورہرہ ہو رہی ہے، وائس پرنسپل کا قتل اور طالبات کو اغوا کر لیا جانا یہ توہین خالی نہیں ہے جبکہ اس گاؤں کی سیکیورٹی پر اور بھی نقصان دہ اثرات ہو رہے ہیں، یہ کہیں تک بھی اس وقت تک کہیں کا ایسا نہیں ہوتا جس میں سیکیورٹی کو دیکھنے کی کوشش کرنے والوں کو کوئی کامیابی مل سکے، اس گاؤں کی یہ حالات بڑے پیمانے پر سیکیورٹی پر اچھی طرح پریشان کرتا ہے اور واضح ہے کہ اس گاؤں میں دائمی تکلیف کا شکار ہو رہے ہیں جو جسمانی حقیقت کو چھوٹا کر رہے ہیں
 
اس وقت بھی لوگ کہتے رہے ہیں کہ نائجیریا میں پوری دuniya سے آنے والے مسلح حملوں کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے راسخ الاmqاق فطری طور پر موجود ہیں لیکن اس کے پچھلے بھی ہوئے جیسے چیبوک میں بوکو حرام نے 2014 میں 270 سے زائد طالبات کو اغوا کر لیا تھا اور اب وہاں کے حالات بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ میرے لئے یہ بات یقینی ہے کہ مسلح حملوں کی وجہ نائیجیریا کے حالات کی جسمانی حقیقت تو نہیں بلکہ اس کی دائمی تکلیف اور عدم یقین سے ہے۔
 
یہ واقعہ ان کی جسمانی حقیقت کو چھوٹا کر رہا ہے جو نوجوانوں کو ڈرامہ بنا رہی ہے۔ اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ وائس پرنسپل کی موت اور 25 طالبات کے اغواء سے گاؤں کی سیکیورٹی میں ایک بڑی مشکل آئی۔ لیکن اس واقعے سے قبل بھی یہ مقام جسمانی طور پر ان کے حالات کی حقیقت کو چھوٹا رہا ہے جو نوجوانوں کو ایک ڈرامہ بنا رہے ہیں۔

اس گاؤں میں کئی سال سے سیکیورٹی کی समसہ تھی اور اس سے یہاں کے شہریوں کو بھی متاثر ہوئے ہیں جبکہ انڈین اور بین الاقوامی محققین نے بھی ان کی مدد کی ہے۔
 
واپس
Top