انسدادِ دہشت گردی عدالت نے فیصل آباد پولیس کو اپنی جانب سے ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کا حوالہ دیا، جس پر انہوں نے صاحبزادہ حامد رضا کی گرفتاری اور اے ٹی سی عدالت میں پیش کردی۔ اس وقت کے صدر شعیب ممتاز نے 8 ستمبر کو ایک بیانیے میں دہشت گردی کے خلاف قانون کے تابع ہونے اور ملک کی آئینی قوتوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن واضح رہتے ہیں کہ وہ اس وقت تک ایسا نہیں کرسکتے جب تک انہیں پورے ملک میں توڑ پھوڑ اور مسلح تنازعات سے نکلنا نہ ہوگا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا ایسا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جس پر فوجی اداروں کو بھی اپنی جانب سے حامد رضا کی گرفتاری کے لیے ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کی مدد لینی پڑی۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے ان تمام افراد کو جیل بھجایا جو ان سیزن کی مظاہروں میں حصہ لینے کے لیے وہاں پہنچتے تھے، اور ان پر 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس وقت تک انسداد دہشت گردی عدالت نے تو ایسا ہی کیا ہو گا جب تک ملک میں ایک ایسا رول اور ایمپائر بنایا جاتا رہے جس پر ہر کوئی اپنی نظر سے دیکھ سکتا ہو، حالانکہ کچھ لوگ اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ اور کون۔
اب یہ بات کیسے آئے گی کہ وہ جو ان سیزن کی مظاہروں میں حصہ لینے جاتے تھے، وہی لوگ 10 سال تک جیل میں بیٹھتے رہن گئے یا یہ صرف ایک نوجوان صاحبزادے کا معاملہ ہے؟
ایسے situations ہیں جب ایسے لوگ اپنی جگہ پر آتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں... یہ توہان تھا، اب تک کی تاریخ میں بھی نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اچھی طرح سے کارروائی نہ ہو سکتی۔ آج بھی وہ لوگ جو شعیب صدر کی بیانیہ کو سمجھتے ہیں ان کی بات کو توڑ پھोडتے رہتے ہیں...
یہ سب بھی تو چل رہا ہے کہ ایسے لوگ کیسے آتے ہیں کہ ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کی جانب سے حامد رضا کی گرفتاری کی وعدہ کر لی گئی ۔ ایسا ہونے سے پہلے اس صدر نے بھی دہشت گردی کے خلاف قانون کے تابع ہونے اور ملک کی آئینی قوتوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ سب کوڈی میں چل رہا ہے۔
فوجی ادارے بھی ایسے لوگوں کی مدد نہ کر سکتے جو دہشت گردی کے خلاف قانون کا پابند نہیں ہو سکتے، اس لیے انہیں اپنی جانب سے مدد دینے سے باہم رہنا چاہیے۔
آج تک دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کی جانب سے حامد رضا کی گرفتاری کر لی گئی، اور اس پر آزاد یوں نہیں تھا کہ ان پر گرفتار کر لیا گیا۔
بہت سا دیکھو 8 ستمبر کو صدر نے کیا تو کیا یہ صرف ایک بیانیہ تھا؟ آج تک یہ ملک توڑ پھوںڈا ہوا ہے اور اس میں دہشت گردی کی گئی ہے، تو کیا صدر کو توڑ پھونڈنا بھی چاہیے؟ اور فوج کی مدد سے گرفتاری کرنے کی بات بھی تھی تو وہ بھی دہشت گردی کے تباہ کن Effectس پر چل پڑ گئے ہیں? اور الیکشن کمیشن نے کیا فیصلہ دیا جس پر فوج کو مدد مل گئی؟ یہ سب ایک بڑا وادھہ ہے جو دہشت گردی کے خلاف قانون کو توڑ رہا ہے
میں اس حوالے سے بہت غضب لہرایا ہوا ہوں گا! یہاں تک کہ ایسے افراد کی بھی گرفتاری ہوئی ہوں گی جو مظاہروں میں حصہ لینے کے لیے پہنچتے تھے! یہ توڑ پھوڑ اور مسلح تنازع کی طرف لے جاتا ہے، اور اب ہم اس فوجی ادارے پر بھی دیکھ رہے ہیں کہ انہیں بھی دھمتھ گردوں کی گرفتاری میں مدد کرنی پڑ رہی ہے!
ایسا ہونے سے پہلے بھی یہ بات تھی کہ اس صدر کو اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف قانون پر عمل کرنا نہیں چاہئیے جب تک انہیں توڑ پھوڑ اور مسلح تنازع سے نکلنا نہ ہوگا! اب یہ بات کتنی بھی حقیقت بن گئی ہوگी।
ایسا ہونے کے باوجود مجھے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کی گرفتاری پر بات کرنے کے لیے ہمیشہ کا دور بھی رہتا ہوگا!
ایسا کیا نہیں ہوگا جب تک انہیں پورے ملک میں توڑ پھوڑ اور مسلح تنازعات پر روکا نہیں جا سکتا! صدر صاحب کی وعدہ کی گئی ہیں لیکن یہی دیکھ رہے ہیں کہ لوگ توڑ پھوڑ لگاتے ہیں تو انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے! دہشت گردی پر قانون کی وعدہ کرنے والے لوگ کبھی اپنی فوری کوششوں پر عمل نہیں آتے، ان کے لئے دیکھنے کو ہی تھا کہ اس سیزن کی مظاہروں میں اچھی طرح اتر کر پھنس گئے!
بھرپور طور پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتی ہے یہ عدالت ابھی تو پوری ملک میں شانت اور ایمنسٹی کا راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے تو کہیں یہ نہیں کہ اس وقت انہوں نے اپنی جانب سے دہشت گردوں کو گرفتار کرکے مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی بھی جگہ بھر دی ہے… اور اب یہ ایسی صورتحال ہے کہ انہیں دھمکیاں دینے والوں کو بھی اٹھا لیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف قانون کے تابع ہونے اور آئینی قوتوں پر عمل کرنے کا ایسا وعدہ کیا ہے جس کی طرف تو پھر بھی دیکھتے چلے…
یہ بات تو ایسی ہی ہے کہ دہشت گردی کو روکنا بھی ایک مشکل کام ہے، لاکین اس میں سے یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ پوری تanieہ کے مقابلے میں وہو اور وہ کہتے ہیں کہ میں رہا ہوا تو یہی بات ہوتی ہے۔ دہشت گردی کو روکنے کی پوری کوشش کرنے کے باوجود جب تک ملک میں مسلح تنازعات اور توڑ پھوڑ نہیں ہوتا تو ان سے نکلنا بھی مشکل ہے، اور اس لئے ہی ایسی صورتحال ہوتی ہے جہاں لوگ اپنے حق میں لڑتے رہتے ہیں تاکہ وہ ہار نہ جائیں۔
اس دہشت گردی کی صورتحال میں لگتا ہے کہ ملک بھر میں وہی رہی تھی جو اس وقت صدر شعیب ممتاز نے کہا تھا کہ انہیں دہشت گردی کے خلاف قانون کی پیروی کرنی ہوگی۔ پورے ملک میڹرے توڑ پھوڑ اور مسلح تنازعات سے نکلنے کا ایسا معاملہ تو ابھی اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک انہیں ہر قسم کی تحریکیں کمرگیں اور تشدد رکھنا پہنچ سکیں گے۔
ایسی صورتحال میں اگر ڈپٹی سپرڈنٹ زعیم کا حوالہ لگا کر صاحبزادہ حامد رضا کو پکڑنا اور 10 سال قید کی سزا سنانے سے واضح رہتا ہے کہ انہیں قانون کی پیروی کرنی ہوگی لیکن اس کے بعد کا کیا کھیل گيا۔