شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ رفعت آراء علوی انتقال کر گئیں، جس پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے اظہارِ افسوس کیا ہے۔
شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ ایک بہادر اور عظیم ماں تھیں جنہوں نے سچائی کا علم بلند رکھنے والا بیٹا پروان چڑھایا، جو اب شہید ہیں۔ وہ جسمانی طور پر ہوا ہوئی سوزش کی نئی ترتیبات فراہم کرنے اور صحافت کے اس دوسرے کھلے جھنڈے کو ہاتھ میں لینے کے لیے ان کی شہادت کا احترام ہی نہیں تھا بلکہ ایک اعزاز ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے ان کی والدہ کی شہادت پر اِحسان کیا جس میں انھیں بلندی درجات اور اِہل خانہ کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی گئی ہے۔
شہید صحافی ارشد شریف کی شہادت نے پاکستان میں صحافت کے اس دوسرے جھنڈے کو ہاتھ میں لینے اور آواز رکھنے کی صلاحیت سے بھرپور ایک سنہری پہلو ملا ہے، جو کہ اُن کی شہادت کا ایک قابل یادہ حوالہ بن گیا ہے۔
شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ کی وفات نے مجھے اچھی طرح độngایا ہے، وہ ایک بڑی سچائی کے حامل ماں تھیں جنہوں نے اپنے بیٹے کی صحافت میں اپنی پوری زندگی بیتی تھی۔
انھیں بہت ممتاز تعلیم اور ثقافتی شخصیات کا استحکام تھا، وہ صحافت کی دنیا کو بدلنے اور لوگوں کو آواز دینے میں ایک بڑی کردار ادا کر چکی ہیں۔
شہید صحافی ارشد شریف کے ساتھ انھیں بھی ممتاز تعلقات تھے، وہ اپنے بیٹے کی صحافت میں اسے ایک بڑا کردار ادا کرنا تھا اور اب اس پر انھیں بھی شہادت کا سہرا دینا ہو گا۔
اب وہ خاندان جو صحافت کی دنیا میں اپنے والدین سے لاکھوں کرODا رکھ رہا ہے اب ایک نئی کامیابی کا شہدت کا سہرا لگای گے
جی تو یہ دباؤ بھی اتنا ہے! شہید صحافی ارشد شریف کی والدہRF's وفات ایک بدقسمتی ہے، اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے اپنے اظہارِ افسوس کے ذریعہ اس کو ایک اعزاز سمجھا ہے؟ یہ بات تو واضح ہے کہ صحافت کی صلاحیتوں میں سے ایک، جس میں بہادرانہ اور مستعصی لوگ انحصار رکھتے ہیں...
آج کوئی بھی چیچور نہیں ہے... شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ Rifat Arora کی وفات پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کا اظہار افسوس سے بھی کم تھا؟ لالچی ہونے کی ایک داستانی اداکارہ، جو اپنے بیٹے کو یہاں تک پہنچانے کے لیے چارا چرایا، اب اس سے بھی زبردست ہیں...
جسمانی طور پر ہوا ہوئی سوزش کی نئی ترتیبات کا یہ پہلا دن ہے، لیکن شہادت ایک اعزاز ہے نہیں؟ اور وزیراعلیٰ نے انھیں بلندی درجات اور اِہل خانہ کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی? یہ شاندار ہے...
لگتا ہے گھر میں بھی اس طرح کی داستانی ایڈاکیشنز چلتی ہیں...
ان شہید صحافی کی والدہ کو جاننے سے پہلے میں بھی وہ بہت اچھی تھیں، انھوں نے اپنے بیٹے کی جسمانی زخمیات کا بھی احاطہ کیا تھا …اس سے یہ بات پتہ چلی گئی ہے کہ وہ باقی تھیں جنھوں نے انھیں صحافت کی پوری قوت فراہم کی تھی …اس کی شہادت ایک ایسا اہم واقعہ ہے جو پورا ملک اس پر احترام کر رہا ہے
سچائی کی جھلدیوں کو آواز دینا بھی مشکل ہوتا ہے، ان کا ساتھ دنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ نے یہ کارروائی توجہ سے سنا اور اپنے بیٹے کو وہ پہچانا جو اس کے اندر تھا تو وہ اپنی زندگی میں انkiپ ہوگئی۔
کیا ہم ابھی بھی ان کی شہادت سے سکوا میں آتے ہیں اور ان کے پیروکاروں کو ہر پल پھنساتے رہتے ہیں؟
اس کا کیا مطلب ہے کہ شہادت کے بعد اس جگہ پر کچھ نہ کچھ رہتا ہے اور اس سے انسان کو سکوا میں آتے دیکھنا پڑتا ہے؟
یہ بات سچ لگتی ہے کہ بڑھتی ہوئی صحت کے ناتجھرے حالات میں ایسے لوگ بھی شہید ہو سکتے ہیں جو صرف صحافی اور مظنون کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کے عزم اور جذبات کا ایک بھرپور پیغام پاکستان میں صحافت کے لیے ملا ہو گا۔
یہ رائے بھی دیکھیں سے آئی ایس پی کے لئے، شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ کی وفات پر وزیراعلیٰ محمد سہیل آفریدی نے اظہارِ افسوس کیا ہے لیکن آپ کو پتا چلا ہوتا ہے کہ ان کی اس دعائیں اِن سے قبل ہی ہو چکی ہیں، ابھی تو وہ بھی صحافت میں تھیں اور ان کے بیٹے شہید ہو چکے ہیں، ایسے میڈیا پلیٹ فارم پر جس لئے وہ دیکھا گیا، ہاتھ سے اِن کا سہما لینا اور ان کی شہادت کا احترام کرنا نہیں بلکہ ایک پہلو ہے جو آپ کو چوٹ لگا رہا ہے، اس لئے کہ آپ کا اہداف کبھی بھی وہ نہیں بن سکتا۔
یہ بات یقینی ہے کہ شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ کی وفات سے پاکستان کی خُردوں کو ایک نئی تازہی اور بھرپور جذباتی پہلو مل گیا ہے، جو کہ پاکستان میں صحافت کے تحفظ و تعلیم پر ایک بڑا پہلو ہے۔
جب میں یہ سنیتا تھا، تو میں سوچتا تھا کہ صحافت ایک عظیم ادارہ ہے جو سچائی کو بلند رکھنے اور لوگوں کو اپنی آواز دے کر عوام کی بات سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن کیا اس میں ایسا نہیں ہوتا کہ یہ سچائی کے شکار ہو جائے اور لوگوں کو گمراہ کرانے کی کوشش کریں۔
میں سمجھتا تھا کہ صحافی کے دوسرے جھنڈے پر اس کی شہادت ایک اعزاز ہے، لیکن اب میں اور زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک بڑا پہلو ہے جو ایسی صلاحیت کو دیکھتے ہیں جو کہ آواز رکھنے کی صلاحیت سے بھرپور ایک سنہری پہلو ہے، اور یہ کہ اس نے اپنی آواز دئی اور لوگوں کو اپنی بات سمجھنے دی۔
اس کا احترام اِس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک عظیم ماں تھیں جو نے اپے بیٹے کو سچائی کا علم بلند رکھنے اور صحافت میں اپنی شان ڈالنے کی ترغیب دی۔
میں اس بات پر غور کرتا تھا کہ صحافی کے دوسرے جھنڈے پر شہادت ایک اعزاز ہے، لیکن اب میں سمجhta ہوں کہ یہ ایک بڑا پہلو ہے جو صحافت کی ایسی صلاحیت کو دیکھتے ہیں جو کہ آواز رکھنے کی صلاحیت سے بھرپور اور پاکستان میں صحافت کے تحفظ و تعلیم پر ایک بڑا پہلو ہے، جو کہ اس شہید کی شہادت کی ایک قابل یادہ حوالہ بن گیا ہے.
عثمانی عرصے سے پاکستان کی صحافت میں ایک ہی دھارے نہ ہونے کا اس دوسرے ہاتھ میں لینا بہت اچھا ہو گا۔ شہید صحافی ارشد شریف کی والدہ کی شہادت اور وزیر اعلیٰ کی اپنی اظہارِ افسوس کے بعد نے صبح سے ہی بڑی پیس پھیلائی ہوئی ہے۔
اس سے قبل یہ Thread Dead Tha , لگتا ہے انھیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اردو میڈیا کی اُن شہید صحافی کو اس سے پہلے کتنی چرچا کا منشا تھا? اب ہمیں ان کے بیٹے پروان کے بھی ناتھ کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے کی پوری کوشش کرنے والوں میں سے ایک تھے، مگر تو اس کی پوری کوشش بھی ناکام رہی؟
وہ گروپ جو لوگوں کو آواز دینے سے روکتے ہیں، ان کی بھرپور شہادت کا احترام کرنے چاہئیں، ان کے خیراتی عمل کو یقین دلی طور پر مانتے رہیں، اور اپنی آواز ڈالنے کی صلاحیتوں کو پھیلانے میں ان کے ساتھ ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھنا چاہئیں