صلاحت کونسل کی اجلاس میں امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کی غزہ امن منصوبے کی حمایت پر قرارداد منظور کرلی گئی ہے، جس میں 13 ممالک نے ووٹ دیا اور ایسی صورتحال نہیں ہوئی جہاں کوئی جانب سے مخالفت بھی کروائی گئی۔ یہ قرارداد غزہ کے استحکام اور بین الاقوامی امن کے لئے ایک اہم اور تاریخی قرار دیا گیا ہے، جس کے ذریعے دوسرے ممالک نے بھی غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام کی حمایت کی ہے۔
پاکستان سمیت 13 ممالک نے ووٹ دیا، جس میں ایمریکا، مصر، قطر، اردن، سعودی عرب، یواے ای، ترکیہ اور انڈونیشیا شامل تھے۔ امریکی مندوب نے سلامتی کونسل کی چیئرمین کو تشکر دی اور کہا کہ ہم سب اکٹھے ہوئے، صورتحال کی سنگینی کا ادراک کیا اور اقدامات کیے، جس سے غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام کی Garland مل گئی ہے۔
غزہ امن منصوبے کی حمایت پر سلامتی کونسل کی قرارداد میں ایسے پہلو شامل ہیں جو غزہ کے استحکام اور بین الاقوامی امن کو ممکن بنائیں گے، جیسے کہ بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی اور غزہ میں عبوری حکومت کا قیام۔
دوسری جانب حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد کو مسترد کردیا ہے، جو ان کے خیال میں فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرارداد غزہ پر بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرتی ہے اور غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اسے غیر جانبدار نہیں رہنے دے گی۔
میری رائے یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے کو مسترد کرنا پاکستان کی سیاسی عقلت اور بین الاقوامی تعلقات سے پھٹتا ہے، کیونکہ وہ اس میں امریکی فوریت کا تعلق بنانے والی صورتحال کو بھی نہیں سمجھ سکتی۔ اور یہ بھی تھوڑا سا حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس منصوبے میں 13 ممالک نے امریکہ کی حمایت پر ووٹ دیا، جس کے بعد دیگرے ممالک کو بھی غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام کی حمایت کرنی پڑی۔
امریکا کی اس قرارداد پر دیکھ رہا ہوں تو اچھا لگ رہا ہے کہ انسافالک کو ایسی صورتحال میں موقوف نہیں کرنا پڑے جیسے غزہ پر انسافالک کی آئینت نہیں رکھنی پڑے۔ 13 ممالک نے ایسی صورتحال میں موقوف نہ ہونے والا ہدایت کیا ہے جو دوسروں کی جانب سے بھی مداخلت نہیں کرنے پر مبنی ہے اور ووٹ نہیں دیا گیا جس پر غزہ کو چیلنج کیا جا سکے۔ یہ ایک اچھا سائंस ہے کہ بین الاقوامی امن کو برقرار رکھنے کی صورتحال میں اکٹھے ہونے والے ممالک نے ایسا ہدایت کیا ہے جس سے غزہ کی استحکام کے لئے بین الاقوامی حمایت مل سکی ہے۔
اس کا میتھود تو توڑنا ہے ، غزہ امن منصوبے کو معزز بنانے کی بجائے انٹرنیٹ پر ایک دوسرا معیار بنایا ہوا ہے۔ امریکی صدر کے ساتھ یہ بہت خوشخلی ہے۔ کوئی ووٹ دیا تو کوئی ووٹ نہیں دیا، اچھا ہے کہ 13 ممالک نے یہ ووٹ دیا لیکن وہ بھی اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔
سفید ایئر 1 اس کا نام تو اچھا ہے ، لگتا ہے کہ یہ کچھ دیر تک چلے گا لیکن وہ لوگ جو غزہ کی راہیں دیکھتے ہیں وہ خوش ہوں گے۔ پورے عالمی معاشرے نے اس سے اپنا مظاہرہ کیا ہے ، اچھا یہ ہے کہ انفرادی طور پر بھی کچھ لوگ خوش ہوئے لیکن انفرادی طور پر تو نہیں۔
اس قرارداد کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں تو کچھ باتا ہے، یہ پاکستان کے لئے بھی ایک اہم اور خوشگوار news ہے جس نے ہماری قومی سلامتی کو بھی مدافعت میں رکھا ہو گا، 13 ممالک نے مل کر ووٹ دیا تھا اور ایسی صورتحال نہیں ہوئی جہاں کوئی جانب سے مخالفت بھی نہ کروائی گئی، یہ شاندار عمل ہے جو ہمارے قومی استحکام کو زیادہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
یہ بات حتمی طور پر خوشخیم ہے کہ صلاحت کونسل نے غزہ امن منصوبے کی حمایت کی، ابھی تک یہ صورتحال فلسطینیوں کے لیے بہت گہری تھی اور کئی سالوں سے اس پر بات چیت کرنا شروع نہیں ہوا تھا ۔
دوسرے ممالک کی جانب سے یہ حمایت ایک بڑی اچھائی ہے، لیکن اس کے پیچھے یہ سوال ہے کہ غزہ امن منصوبے کو کس طرح تعملیں گے؟ کیا وہ فلسطینیوں کی حقوق اور مطالبات کا احترام کرें گیا یا ان کی جانب سے کیا ہوا ہوگا؟
اسपर یہ بھی بات نہیں ہے کہ غزہ امن منصوبے کو کئی سالوں سے تحریک دی گئی تھی اور ابھی تک اس پر کسی حل کی جانے کا hopes nahi tha ۔ تاہم، یہ بات کہ اس پر چند منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں، ایک بڑا اچھا سگن ہے۔
اس سوال پر جو لوگ فوری طور پر غضب کا اظہار کر رہے ہیں وہ ایسا کیا کرتے ہیں جیسے انہیں یہ پتا نہیں کہ اس منصوبے کی حمایت میں 13 ممالک نے اٹھایا ہے؟ یہ تو ایک بڑا کارنے والا سلوک ہے کہ وہ لوگ جس پر یہ منصوبہ لگایا گیا ہے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ اس منصوبے کی حمایت میں ایسی صورتحال نہیں ہوئی جہاں کوئی جانب سے مخالفت بھی کروائی گئی ہو۔
یہ تو ایک لالچاہت کا موقع ہوا! پھر بھی یہ قرارداد غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام کی taraf نظر رکھتی ہے، لیکن حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں نے بہت حریصانہ لگ رہے ہیں! اب تو دوسرے ممالک کا یہ ووٹ کیا؟ پاکستان کی جانب سے بھی ووٹ دیا گیا اور اب یہ قرار دیا گیا ہے کہ غزہ کے لیے بین الاقوامی استحکام کی taraf نظر رکھنا ہے... لالچاہت کی بہت سی طرف!
میری بات یہ ہے کہ انسداد تنازعہ منصوبے پر سلامتی کونسل کی قرارداد کو لیتے وقت، اس بات کو کوئی اہم سٹینڈ نہیں لگا رہا تھا کہ یہ منصوبہ کتنا سڑک پڑا ہوا ہے؟ میرے پاس یہ نہیں پتا کہ انسداد تنازعہ کی اصطلاح میں کیا غلطی ہوئی ہے۔
اس منصوبے سے قبل، امریکی صدر نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین کو دوسرے ممالک کے تحت رکھنا شامل تھا، اس پر پوری دنیا کی تنقید ہوئی تھی اور یہ منصوبہ بالکل توێمپف نہیں رہا۔ پھر انسداد تنازعہ کے نام سے ایک نئا منصوبہ پیش کیا گیا، جس کی حمایت پر سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہوئی تھی۔
اس طرح چل رہا ہے کہ ڈیپٹی سیکرٹری اسٹیٹ نے سلامتی کونسل کی چیئرمین کو تشکر دی اور کہا کہ یہ پورا سدھا کام تھا، لیکن یہ بات تو نہیں ہو سکتی کہ اس منصوبے پر کیا غلطی ہوئی ہے؟
یہ قرارداد ایسی ہے جیسا چلنا پڑا، پاکستان میں تو ووٹ دیا گیا لیکن کیا یہ ووٹ غزہ کے لیے ساتھ ہی نہیں آیا؟ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل میں ووٹ دینا بھی ایک سیاسی معاملہ ہے، نہ کہ فلسطین کے لیے ایک اقدامے کا احاطہ ہے۔