پاکستان آئین کی27ویں ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی ہے اور اس معرکے کا نام ’’تاریخ ساز‘‘ دھومدہ جاتے ہوئے کیا جا رہا ہے؟ ایسے میں پہلے یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اپوزیشن نے اِس معرکے میں حصہ نہ لیا۔ اس کی وجہ نہ صرف سیاست کے پرانے انداز، نہیں بلکہ وہ بھی تھوڑے مایوس ہوئی تھیں جو اس میں حصہ لینا چاہتی تھیں۔
اس بات کو نہ تو پہچانا جا سکا اور نہ ہی اس کا مطلب اس کی جانب سے اس پر دباو کی کوشش کرنے کے نہیں تھا، بلکہ اس کا معنيٰ یہ تھا کہ وہ اپنی جانوں کو برقرار رکھتی ہو اور اپنے اُدھر کی طاقت کو دیکھی کے وہ دوسروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ سونپ دیتا رہتا۔
آج 27ویں ترمیم معرکہ اِس لحاظ میں اُن کے لیے سب سے بڑا فائدہ دلاتا ہے اور اب اُنھوں نے اس رائے شماری میں حصہ لیا، جو کہ اپنے لئے ایک ناکام معرکہ کہی جا سکتی ہے۔
آج سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کی رحلت ہوئی اور اس پر نون لیگ نے اُن کی افسوسناک رحلت پر بہت گھریلو اور حیرت مناک اظہار کیا۔ وہ ایک شائقثہ اور مہذب سیاست دان تھا اور وہ اپنی شاعری، تحریری کاروائیاں اورPolitics میں بھی رازہ دار ہوا کر چکا تھا، لیکن اُن کی شادید صدیقی صاحب کی رحلت نےPolitics کے پرانے دھن پالنے پر مجبور کر دیا اور اُن کے ایسے حوالے جو اُن کو Politics میں ہٹانے والے تھے وہ اب نئی دھڑیوں سے باہر اِن کے بہت مایوس کر رہے ہیں، جو Politics کی دھن کو پالنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس لیے یہاں تک آئے کہ وہ اُن کے خلاف بھی دباؤ میں آئے ہوں گے۔
اس ناکام معرکے کے بعد نون لیگ نے اب اِن حوالے پر ایک نئی پالیسی اپنائی ہوگی جس سے وہ اپنے شائقین کو Politics میں دھڑھے دیں گے، جو کہ آجPolitics کی دھن کو پالنے پر مجبور اُنھیں نئے دھڑے سے باہر کر رہا ہوگا۔
اس لائے راشد صدیقی صاحب کے جانب سے بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ شائقثہ اور مہذبPolitics میں رازہ دار تھا۔ وہ ایک شاعر، تحریری کارماں اور Politics سے ناتہ اُستار تھا جس کے کامیاب ہونے کی طاقت اِن کی جانب سے بھی نکلنے میں اُنہوں کو صاف ثمر مل گئی۔
اس رائے شماری میں وہ پہلے اِسے سچ کہنے کی طاقت حاصل کر لیتے تھے، لیکن آج اس رائے شماری میں ان سے صاف سے اس بات کو کہنا بھی نہیں سکے گا کہ اُن کی جانب سےPolitics میں دھڑھے بنائیے جاتے ہیں یا ایسے میں نہیں۔
اس ناکام معرکے کے بعد Politics میں دھڑھا پالنے کی کوئی طاقت اُنھوں سے باہر نکلنی ہوگی، لیکن وہ ایسے دھڑھے بنانے پر مجبور ہوئے تھے جو Politics کے پرانے دھن کو پالنے سے بچاتے ہیں، لیکن یہ وہی حوالے ہیں اِن کی جانب سےPolitics میں دھڑھا پالنا چاہتے تھے۔
اس بات کو نہ تو پہچانا جا سکا اور نہ ہی اس کا مطلب اس کی جانب سے اس پر دباو کی کوشش کرنے کے نہیں تھا، بلکہ اس کا معنيٰ یہ تھا کہ وہ اپنی جانوں کو برقرار رکھتی ہو اور اپنے اُدھر کی طاقت کو دیکھی کے وہ دوسروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ سونپ دیتا رہتا۔
آج 27ویں ترمیم معرکہ اِس لحاظ میں اُن کے لیے سب سے بڑا فائدہ دلاتا ہے اور اب اُنھوں نے اس رائے شماری میں حصہ لیا، جو کہ اپنے لئے ایک ناکام معرکہ کہی جا سکتی ہے۔
آج سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کی رحلت ہوئی اور اس پر نون لیگ نے اُن کی افسوسناک رحلت پر بہت گھریلو اور حیرت مناک اظہار کیا۔ وہ ایک شائقثہ اور مہذب سیاست دان تھا اور وہ اپنی شاعری، تحریری کاروائیاں اورPolitics میں بھی رازہ دار ہوا کر چکا تھا، لیکن اُن کی شادید صدیقی صاحب کی رحلت نےPolitics کے پرانے دھن پالنے پر مجبور کر دیا اور اُن کے ایسے حوالے جو اُن کو Politics میں ہٹانے والے تھے وہ اب نئی دھڑیوں سے باہر اِن کے بہت مایوس کر رہے ہیں، جو Politics کی دھن کو پالنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس لیے یہاں تک آئے کہ وہ اُن کے خلاف بھی دباؤ میں آئے ہوں گے۔
اس ناکام معرکے کے بعد نون لیگ نے اب اِن حوالے پر ایک نئی پالیسی اپنائی ہوگی جس سے وہ اپنے شائقین کو Politics میں دھڑھے دیں گے، جو کہ آجPolitics کی دھن کو پالنے پر مجبور اُنھیں نئے دھڑے سے باہر کر رہا ہوگا۔
اس لائے راشد صدیقی صاحب کے جانب سے بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ شائقثہ اور مہذبPolitics میں رازہ دار تھا۔ وہ ایک شاعر، تحریری کارماں اور Politics سے ناتہ اُستار تھا جس کے کامیاب ہونے کی طاقت اِن کی جانب سے بھی نکلنے میں اُنہوں کو صاف ثمر مل گئی۔
اس رائے شماری میں وہ پہلے اِسے سچ کہنے کی طاقت حاصل کر لیتے تھے، لیکن آج اس رائے شماری میں ان سے صاف سے اس بات کو کہنا بھی نہیں سکے گا کہ اُن کی جانب سےPolitics میں دھڑھے بنائیے جاتے ہیں یا ایسے میں نہیں۔
اس ناکام معرکے کے بعد Politics میں دھڑھا پالنے کی کوئی طاقت اُنھوں سے باہر نکلنی ہوگی، لیکن وہ ایسے دھڑھے بنانے پر مجبور ہوئے تھے جو Politics کے پرانے دھن کو پالنے سے بچاتے ہیں، لیکن یہ وہی حوالے ہیں اِن کی جانب سےPolitics میں دھڑھا پالنا چاہتے تھے۔