سوشل میڈیا پر اشتعال پھیلانے اور دھمکیاں دینے کا بیان و خبر شائع کی | Express News

طبیعیات دان

Well-known member
गरمی ں تھانے میں ایک اور گاڑی چلائی جائے تو یہ لگتا ہے کہ شہر کی پولیس اپنے کام کو بڑھا رہی ہے۔

کامران فاروقی کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرایا گیا ہے جس میں سوشل میڈیا پر اشتعال پھیلانے اور دھمکیاں دینے کے علاوہ خوش قسمتی سے بچ جانے کا بیان و خبر شائع کرنے کا جرم شامل ہے۔

اس مقدمے میں مدعی کے مطابق، انھوں نے گارڈن تھانے میں اپنی دائیں پناہ سے لوگ بتایا کہ وہ اسی وقت جب لیاقت محسود کی خوش قسمتی سے بچ جانے کے حوالے سے ایک ویڈیو دیکھ رہے تھے، اس میں کامران فاروقی نے اپنے موبائل فون پر ایک اشتہار بھر کر ڈال دیا تھا۔

جس میں وہ شخص نے کہا تھا کہ اگر میرا ایک کم لمحے پہلے نکل جاتا تو یہ ابھی اپنی گاڑی سمیت جلتا اور عوامی ردعمل ہوتا۔

مدعی کے مطابق، اس کے بعد ڈمپر ایسوسی ایشن کی صدر لیاقت محسود اور ان کے نتیجے کے لئے گناہ مند افراد نے اپنی رانگیوں میں آ کر شام کو ٹکر مار کرکے ایک شخص کو قتل اور اس کی اہلیہ کو زخمی کر دیا تھا، جس کے بعد لوگوں نے ڈمپر کو آگ لگا دی تھی۔

اس واقعے کے بعد لیاقت محسود کے ساتھ ان کے نتیجے کی کوشش میں گناہ مند افراد نے اپنے گن مینوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ شام کو آگے بڑھ کر گاڑیوں میں تھانہ گارڈن رامسوامی علاقہ میں چلائی ہوئی تھی۔

مدعی کے مطابق، اس سے پہلے 2 مقدمے گارڈن تھانے میں درج ہو چکے ہیں اور اب کامران فاروقی کو ایسا بیان و خبر شائع کرنے کا جرم قرار دیا گیا ہے جس کا یہ جرم 506 بی اور پیکا ایکٹ 2016 کا ہونا پاتا ہے جو قابل دست اندازی جرم ہے۔

اس لئے مقدمہ کو خلاف کامران فاروقی کے خلاف درج کرایا گیا ہے، اور ان سے زیادہ تفتیش انویسٹی گیشن سی آئی سی گارڈن ڈویژن پولیس کریگی ہوگا۔
 
امن ہونے کا ایک سوال ہے، یہ بات تو چلی گئی ہے کہ شہر کی پولیس اپنی کام کو بڑھار رہی ہے، اس میں کچھ اور لگتا ہے کہ انہیں کافی سے زیادہ وقت ماحولیات کو متاثر کرنے والی گاڑیاں چلانا پڑ رہا ہے، یہ تو ایک معاملہ ہے، لیکن اس میں سوشل میڈیا پر اشتعال پھیلانے کے علاوہ خوش قسمتی سے بچ جانے کا بیان و خبر شائع کرنے کا جرم شامل ہونا تو کچھ مختلف ہے، یہ بات دہرائیں گے کہ ماحول کو متاثر کرنے والی گاڑیاں چلائے جانے سے زیادہ ایسا بھی کچھ نہیں ہے؟
 
امیر خان کو کچھ دیر سے شہر میں رہتے تھے، ان کی گاڑی بھی چلی گیا تو یہ لگتا ہے کہ پولیس نے اپنے کام کو بڑھایا ہے۔ مگر وہ بات سچ ہی ہے کہ شہر میں ایک شخص نے گارڈن تھانے پر ایک رانگیوں کی لڑائی جاری رکھی، ایسا لوگوں نے کیا جو ڈمپر ایسوسی ایشن کی صدر کو قتل اور زخمی کرنے کی تائید نہیں کرتے تو یہ اچھا ہو گا کہ لوگ اپنی رانگیوں میں آ کر لڑائی جاری رکھیں۔

ایسا ہوتے ہی مظالم ہی نہیں پہنچتے، سوشل میڈیا پر بھی ایسی باتوں کے شائع ہونے سے پہلے لوگوں کی رانگیوں میں ہوا تے پہلو ہوتے ہیں۔
 
یہ لگتا ہے کہ ایسے واقعات میں پہلے سے ہونے والی چھٹپٹی کی واضح نہیں کی جاتی، گارڈن تھانے پر دھمکیاں دینے کے علاوہ لوگوں کو خوش قسمتی سے بچ جانے کا بیان شائع کرنا اور پھر اس پر عمل کرکے ہار جاتے ہیں، یہ ایک نئے گولہ بھرنے کی جگہ بن گیا۔
 
یہ جھوٹے مقدمے کیا نیند اٹھائیں? وہ لوگ جو انٹرنیٹ پر اپنے گیلری سے یہ چال آ رہے ہیں، ایسے معاملات میں کچھ بھی نہیں کرتے۔ لیاقت محسود کی خوش قسمتی کا ذکر کرنا اور اس پر شام کو ٹکر مار کرکے قتل کا عجائب دکھانا، یہ سارے کچھ لوگوں کے ذہن میں بھرپور ماحولیات کرتا ہے؟
 
جب تک شام کو ایسے واقعات جتنا آ رہے ہیں، یہ لگتا ہے کہ عوام کی بھاگت پھرگٹ کو آگ نہیں لگ سکتی۔

کسی بھی شخص کی گاڑی میں تھانے سے شہر کی پالیس ایک نئی طرف کھینچ جاتی ہے، اور یہ لگتا ہے کہ اس کے لیے کوئی ذمہ داری نہیں، چاہے وہ ڈمپر ایسوسی ایشن کی سربراہی کر رہی ہو یا کسی اور کی ہو۔

اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو عوام کو یہ چہچہانا محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ شہر میں ہونے والے واقعات اس مقام پر ایک حقیقت سے بھی اہم تھانے کے طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
 
واپس
Top