سعودی عرب میں 6شاہی محلات عوام کیلئے کھل گئے

صحرا نورد

Well-known member
اسحاق بن محمد کی لکھی گئی ان شاہی محلات میں جسمانی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی تو یہ کیسے عوام کو آگہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

شاہی محلات سے متعلق کچھ باتوں پر تنقید کی گئی ہے، خاص طور پر ان کی علاج کی صورت میں عوام کو شریک کرنے کی پالیسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نئی پلیٹ فارم ہے اور وہ اس پر اپنی رائے ظاہر کر سکتے ہیں۔

حکومت کے مطابق درعہ شہر میں واقع یہ شاہی محلات اس وقت عوام کی کھل پہلی ہیں۔ ان محلات میں آئندہ مہینے تک عوامی رہنمائی کے لیے ہر روز وہاں کھلنا ہوگا۔

شاہی محلات درعہ شہر میں تیسری ثقافتی ورثے میں شامل ہیں جسے یونیسکو نے اس وقت کے لئے ایک ممتاز مقام قرار دیا تھا۔

اس شہر کی سب سے پرانی اور مشہور عمارت ہے جو 1384 میں تعمیر کی گئی تھی۔
 
ایسے محلات کے علاج پر عوام کی رائے لگتے ہیں تو یہ کامیاب ہو جاتے ہیں، پہلے تو انھیں عوام کے سامنے سونپنا پڑتا ہے
 
اسحاق بن محمد کی لکھی گئی محلات بہت کچھ باتوں پر تنقید کا ملازمت کر رہے ہیں، خاص طور پر ان کی سہولتیں اور عوامی تعاون کی پالیسی کی طرف ہیں۔ یہ دیکھنا مشکل ہے کہ اگر ان محلات میں جسمانی رہنمائی نہیں ہوتی تو وہ کیسے عوام کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ یہ شاہی محلات کیا ہیں اور ان میں کیا تعاون کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم ضروری ہوگا جو عوام کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی اجازت دے۔
 
بہت غلط ہوگا ان شاہی محلات کو عوام کے سامنے لانے کے ساتھ ایک نئی پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرنا۔ اگر ان محلات کی جسمانی رہنمائی نہیں ہو سکتی تو وہ اور بھی خطرناک ہیں، آپ کو یہاں جانا نہیں چاہئے؟
مگر ان کے علاج میں عوام کی شرکت پر ایک پلیٹ فارم بنانے سے بھی ہمارے اور کوئی فائد نہیں ہوگا، یہ صرف اس معاملے کی زبانی رہنمائی ہے جو عوام کے لیے مفید نہیں ہوگا اور جس میں ایک نئی بھرپور پلیٹ فارم کی ضرورت ہے وہ یہ ہی ہوگا 🤔
 
😊 یہ دیکھنا میرے لئے بہت خوفناک ہے کہ شاہی محلات میں جسمانی رہنمائی حاصل نہیں ہوتے تو کیسے عوام کو آگہ کیا جاسکتا ہے؟ یہاں تک کہ اس شہر کی سب سے پرانی عمارت 1384 میں بنائی گئی تھی، اور اب وہاں عوام کو کھلنے کے لیے کافی اچھا وقت نہیں دیا گیا ہوگا۔ یہ بہت غیر ملکی لکیروں سے ملتا ہوا دیکھ رہا ہوں، شاہی محلات میں عوام کو آگہ کرنے کے لیے اس کی وہاں کھلنا ایک بڑا پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔
 
سخت کھانا ہی نہیں، یہ بھی بات ہے کہ شاہی محلات کے لاکھو لاکھ پیسے رکھنے والے لوگ عوام کی رائے کو کمزور کر سکتے ہیں، یہ کہنے کے بعد بھی وہ عوامی رہنمائی کا مौकا نہیں بناتے، اور شہر کی ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ تو کام ہو گا۔
 
اس شاہی محلات کا معیار کچھ بھی نہیں ہوگا اس وقت تک جب وہ عوامی رہنمائی کے لیے خुलے ہوں گے اور عوام کے لئے آسان رہنمائی کی منصوبہ بندی کر لی جاے تو یہ کامیاب ہو سکتا ہے
 
یہ واضح ہوگا کہ شاہی محلات کے عوام کو آگہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی سرگرمیوں میں کچھ تبدیلیاں کی جاائیں۔ جیسا کہ ان محلات میں جسمانی رہنمائی نہیں ہوتی تو اسی طرح عوام کو بھی شریک کرنا ضروری نہیں ہوتا، مگر وہ لوگ جو اس پر اپنی رائے ظاہر کرنا چاہتے ہیں، انہیں کوئی ایسی پلیٹ فارم دیا جاسکتا ہے جس پر وہ اپنی رائے لوگوں تک پہنچا سکیں۔
 
اس شہر کے یہ محلات بہت سنہری ہیں، آپ کو وہاں جانے سے پہلے کچھ جوئے تو مل جاتے ہیں...

وہ شاہی محلات عوام کی کھل پہلی نہیں ہیں، ان میں شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ کھل جاتے ہیں تو یہ عوام کی ووٹنگ کے لیے نہیں ہوتے...

اسحاق بن محمد کو شاہی محلات میں جوسیمانی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی تو یہ عوام کو آگہ کرنے کے لیے نہیں ہوتا...

ان شاہی محلات کی انعقاد کے لیے ایک نئی پلیٹ فارم بنائی گئی ہے، جس پر عوام اپنی رائے ظاہر کر سکتے ہیں...

یوں تو یونیسکو نے ان کو تیسری ثقافتی ورثے کے طور پر معزز مقام دیا ہوتا ہے، اس لیے عوام کو بھی ان میں رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں...
 
اسحاق بن محمد کے لکھے ہوئے محلات میں شریkat نہیں ہونا تو یہ سچ ہے کہ عوام کو آگہ کرنے کے لیے ان سب سے زیادہ Effective nahi hoga. Kuch logon ka yeh bhi koi problem nahi hai, unkaafi kisi tarah se apni raaye dikhana chahte ho to yeh nahi hota.

Lekin un dono tarike ke liye jese ki shuruwat mein wo shaheri mahol mein uthate hain aur phir wo rahne ka vishay bhi hota hai, wo uski raayi ko aage le ja sakta hai.
 
عوام کو آگہ کرنے کے لیے یہاں ایک ایسا तरीकہ ہو سکتا ہے جہاں عوام کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی پوری آزادی دی جائے، لیکن یہ واضح کیا جائے کہ جو لوگ ان محلات میں آتے ہیں وہ اپنی رہنمائی کو اپنی ذمہ داری لے رہے ہیں۔ مگر یہ تو حقیقت ہے کہ عوام کی جانب سے کچھ لوگ ان محلات پر پھیلنے سے پہلے اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن ان محلات میں ایسا نہیں کیا گیا جو لوگ اپنی جانوں کے خطرے میں دھونڈے ہوئے لوگ یہاں اترتے ہیں۔
 
اسحاق بن محمد کی لکھی ہوئی لکھت نہیں ہوگی ان شاہی محلات میں جسمانی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی تو یہ عوام کو آگہ کرنے کے لیے کچھ لازمی نہیں ہے کیونکہ عوام میں بھی وہی رہنمائی موجود ہوتی ہے جو شاہی محلات میں واضح ہوتی ہے ۔ عوام کو یہ کہنا پڑے گا کہ شاہی محلات میں نچوٹے ہیں تو ان میں بھی عوامی رہنمائی موجود ہوتی ہے۔
 
اس اشاروں سے مل کر ان شاہی محلات کا کیا مطلب ہوگا؟ عوام کو اسی وقت آگہ کرنا پڑے گا جب وہ ان محلات میں کھلنے کا عزم کرتے ہیں اور اس طرح انہیں شریک کیا جائے گا، لیکن اب یہ بات بھی پتہ چلتا ہے کہ عوام کو اب ایسے محلات میں جانا نہیں چاہیے جو ان کی مٹی سے لپیٹے ہوئے ہیں۔ اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو عوام کو شریک کرنے والے سائٹس پر اپنی رائے ظاہر کرنا چاہتے ہیں، ان کی بھی پوری دیکھ بھال نہیں کی جائے گی اور یہ محلات ایسی ہوں گے جو عوام کے لئے حیرت انگیز ہوں گے۔
 
اسحاق بن محمد کے لکھے ہوئے محلات میں عوام کو آگاہ کرنے کی پلیٹ فارم کی باڈی کیسے بنائی جائے؟ یہ سوال بہت اچھا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ محلات میں عوامی رہنمائی کے لیے کافی سے پریشان نہیں ہیں۔ آئندہ مہینے تک شاہی محلات میں وہاں نہیں کھل رہے تو عوامی رہنمائی کی پالیسی کس طرح کام کرے گی؟ 1384 میں تعمیر کردہ عمارت کا کوئی انعام یا مفت نہیں ہے، یہ صرف ایک جائیداد ہے۔
 
اسحاق بن محمد کے لکھے ہوئے محلات میں جسمانی رہنمائی نہیں ہوتی تو وہ کیسے عوام کو آگاہ کریں گے؟

mere likhan me tareeke se kuch nahi hai jo shayad public ko zikr kar sake. unhe pehle apne khud ki galtiyon ka mulaqat karana chaahiye, phir hi koi bhi tarika jisase woh awaam ko zikar karein, uska sahi upyog karna chahiye.
 
اس شہر کی عماراتوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ان شاہی محلات کے رہنما ہیں اور وہاں رہتے ہیں تو بے پناہ جسمی رہنمائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں تو یہ کیسے عوام کو آگاہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ شہر میں تھینڈریٹس اور فیشن سٹیلیز بھی شامل ہیں جو وہاں رہتے ہیں تو ان کی جسمی رہنمائی کیسے نہ ہو سکتی ہے؟ اسے صرف ایسے لوگ آگاہ کر سکتے ہیں جنہیں یہ بات پتہ ہے کہ وہ شاہی محلات پر رہتے ہیں اور ان میں رہنمائی نہیں حاصل ہوتی ہے۔
 
اسحاق بن محمد کی ان شاہی محلات کے بارے میں لوگوں کو آگہ کرنا ایک مشکل کام ہوگا، خاص طور پر جب ان محلات میں جسمانی رہنمائی نہیں دی جاتی ہے اور عوام کی صحت پر خاص دیکھ بھال نہیں کی جاتی ہے۔

اسلام آباد کا شاہی محل جو یونیسکو کا ایک ممتاز مقام ہے اس کے بارے میں لوگوں کو آگہ کرنا بھی مشکل ہوگا، خاص طور پر جب ان پلاٹ فارم پر عوام کے comments کو سامنے لاتے ہیں تو یہ لوگ اپنی رائے ظاہر کر سکتے ہیں اور اپنے بھائی چارے کو وہاں کھلنا پڑتا ہے۔

اس طرح عوام کی صحت پر خاص دیکھ بھال نہیں کی جاتے ہیں تو اس سے عوام کی آگاہی پیدا نہیں ہوگی اور ان شاہی محلات میں لوگ اپنے بھائی چارے کو لے کر جانے کا بھی نئا پلیٹ فارم بن جاتے ہیں۔
 
اسحاق بن محمد کے لکھے ہوئے محلات ان شاہی جگہوں پر بھی آؤٹ پاتھ نہیں ہوتے تو وہ عوام کو آگہ کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں؟ یہ تو ایک جھگڑا ہے، عوام کی نظر سے اس پر کیا انٹراسٹنگ باتوں کے بارے میں کہنا چاہئیں؟ وہ کیسے لوگوں کو آگہ کرسکتی ہیں?
 
یہ بہت غمگستھ ہے کہ شاہی محلات میں جسمانی رہنمائی نہیں ہوتی تو یہ عوام کو آگاہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ سب سے پرانی اور مشہور عمارت کی وجہ سے بھی یہ بہت خطرناک ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر تو کئی سالوں کی تاریخ کو دیکھ رہے ہیں لیکن وہ محسوس نہیں کر رہے کہ ان میں بھی کسی کی جان کی گاہی ہے۔ شاہی محلات میڰ عوام کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہئے کہ یہاں اور اس شہر میں کیونے بھی لوگوں کی جان لی گئی ہے؟ ایسا ہونے پر عوام سے ہمیں کوئی رہنمائی ملنی چاہئے یا تو کہہنا اور دکھانا بھی نہیں مشکل ہو گا۔
 
اس شہری شاہی محلات میں عوام کو آگہ کرنے کے لیے ایک نئی پلیٹ فارم بنایا گیا ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اس طرح کی چीजوں میں عوام کو شریک کرنے سے پہلے ان کے بارے میں جانتے جانے کی ضرورت ہوتی ہے। یہ ایک اچھا موقع ہے کہ عوام کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا مौकہ ملا ہو، لیکن اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو ان شاہی محلات کی ذمہ داری لے رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عوام کو ایسے منصوبوں میں شریک کرنے سے پہلے ان کے مفاد اور ضروریات کو بھی جاننا ہوتا ہے، نا کہ صرف اپنی رائے ظاہر کرنے کی ایک چہل بن جائیں۔
 
واپس
Top