طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ پر قاتلانہ حملہ! دشمن کون؟ تہلکہ خیز تفصیلات سامنے آگئیں

مور

Well-known member
طالبان کی قیادت ملا ہبت اللہ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد وہ زندہ ہونے کی خبر ملی اور اس وقت کوڈ ٹی سی کا سامنا کر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی قیادت کو اندرونی بحران کا سامنا ہوا جس نے 10 نومبر کو شام ہٹا ملا ہبت اللہ اخوندزادہ پر مرکزی جہادی مدرسہ میں قتل کی ایک ناکام کوشش کی۔

ملا ہبی لہ ہیں طالبان کے سربراہوں میں سے ایک جنہیں اس کی حفاظت کو انتہائی سخت سمجھا جاتا تھا۔ شام ہٹانے والے حملے میں لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ نے اپنی دھیمی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے لیکن اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔

حملے سے پہلے حفیظ صدیق اللہ کو ہلمند صوبے کے موسیٰ قلعہ ضلع کے رہائشی مولوی عبد النبی کا بیٹا تھا، اس نے عزم 215 آرمی کور میں شامل ہونے کی وجہ سے ہبت اللہ تک رسائی حاصل کرلی اور اسے جہادی تربیت دی گئی۔

ملا ہبی لہ کی حفاظت تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جن میں عمری لشکر شامل ہوتا ہے جو کہ 60،000 مسلح جنگجو پر مشتمل ہوتا ہے اور جس کی برا۔.
 
وہیڈی وہڈی ہوگیا ہے ان میں سے بھی کچھ گریجویٹس ہیں… ان کو پلاگ ایجوکیشن ملتی ہے اور یہ کہ کہ وہ لڑائیوں میں حصہ لیں… میرے بچوں کے فیکٹری میں ایسا ہی ہوتا ہے… اور یہ وہڈی وہڈی لڑائی کی دھمکیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے… لیکن میرا سوال ہے کہ ان میں سے کتنیوں کو پلاگ ایجوکیشن ملتا ہے؟
 
یہ ایک بڑا انیشیالٹو ہے۔ ملا ہبی لہ کو شام ہٹانے والے حملے سے پہلے وہ قندھار کی حراست میں تھا اور اب وہ زندہ ہیں، یہ ایک بڑا ناکام کوشش ہے جو طالبان کو اندرونی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔

ملا ہبی لہ کی حفاظت کے لیے عمری لشکر اور 60،000 مسلح جنگجو کی ضرورت ہے، یہ ایک بڑی چیلنج ہے جو طالiban کو برا۔.

اس ناکام حملے سے پہلے حفیظ صدیق اللہ کو طالiban کی جہادی تربیت دی گئی تھی اور وہ ہلتو لشکر میں شامل ہونے کے بعد اس پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔
 
یہ واقفہ ایک بھرپور حادثہ ہے जس سے افغانستان کے حالات میں گہری تاریکیوں کا قیاس ہوتا ہے۔ ملا ہبی لہ کی جان اور ان کی حفاظت پر یہ حملہ ایک حیران کن واقعہ ہے جس سے اس کے رہنماوں اور مسلح گروہوں میں بھی گہرائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔

ایک دوسری طرف، حفیظ صدیق اللہ کی جانب سے جس نے خود کو ملا ہبی لہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا، وہ اس وقت ایک جھت اور بدامنی میں پھنسا تھا جس کی وجہ سے اسے اپنا موقف بھی نا معین رہا۔ اس کے بعد دیکھو، یہ اس کی دھیمی سرگرمیوں کا نتیجہ بھی بن گیا۔

یہ واقعہ ہمیں ایک بات یاد دلاتا ہے کہ اورنگیز خان کے دور میں ہم بھی اپنے ہاتھوں نہیں ساتھیؤں کو رکھتے تھے، ہمیں اس بات کی آگاہی بھی ضروری ہے کہ جس جگہ پر ہم اٹھتے ہیں وہی جگہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ لاتھ رکھتی ہے۔
 
یہ وہ وقت ہے جب افغانستان میں طالبان کی قیادت کو دیکھنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ملا ہبی لہ کے حملے نے اس کو اچھی طرح زبردست پہنچایا ہے اور اب وہ زندہ ہونے کی خبر ملی ہے، یہ ایک گہری صورت حال ہے جو طالبان کے اندر بھی ناکام ہے۔

حفیظ صدیق اللہ کو ایسے حملے میں پہنچانا کہ اس پر وہ زخمی ہو جائے اور بعد ازاں وہ زندہ ہونے کا بھی امکان ملا ہبی لہ کی حفاظت کو اچھی طرح پہنچانے کے لیے یہ ایک ناکام کارروائی تھی جو ہمیشہ سے طالبان کے اندر موجود ہے۔

اس کے علاوہ شام ہٹانے والا حملہ بھی ایک ایسا واقعہ تھا جس نے اسے ایک واضح سंदیش کے طور پر پیش کیا، ملا ہبی لہ کو اپنے ارادوں کی طرف آگے بڑھنے کے لیے ایسی کارروائیوں سے روکنا چاہیے جو اس کی حفاظت کے لیے اچھی نہیں ہیں، اس سے ان کی قوت میں کمی آئی ہے۔
 
یہ گھنڈول بھی نہیں ہوا ، طالبان کے سربراہوں میں سے ایک کو بھی ان کے اپنے لئے پریشانیاں پہچانتے ہیں ، ملا ہبی لہ ایک طاقتور شخص تھا اور اس کی حفاظت کو انتہائی difícil سمجھا جاتا تھا ، لیکن لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ نے ان کے جہادی تربیت میں پڑھے ہوئے علم کو اپنی دھیمی سرگرمیوں سے ان پر حملہ کر دیا تھا ، اور اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔
 
اس شام ہٹنے والے حملے کے بعد ملا ہبی لہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو منظر عام پر رکھنا بہت اچھا ہوگا۔ ان دونوں کی زندگی جیسے ایک چوکور پہلوان کی لڑائی کے بعد دوسری طرف جا کر بیٹھ جائی گئی۔ ملا ہبی لہ کے ساتھ قندھار کے قریب رہنا اور اس کو انصاف دینا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
 
ایسا منظر دیکھنا میری لگتا ہے جیسے ایک بدترین سونے کی باڑ میں ہوا ہوئی ہےۡ۔ افغانستان کے طالبان نے اپنے سربراہ ملا ہبی لہ کو ایک خطراتناک حملے کے بعد وندھ رہنے کی خبر ملی جس سے انہیں اندرونی بحران کا سامنا کرنا پڑ گیا اور 10 نومبر کو اس پر شام ہٹایا گئا تھا۔ میری لگتا ہے یہ سارے حالات ایک عالمی بحران کی طرف بھی گاڑھا لے جائیں گے، طالبان کے سربراہوں میں سے ایک ملا ہبی لہ کو اپنے حفاظت کو انتہائی سخت سمجھنے والوں میں سے ایک تھا، لیکن اسے یہ ہلچل پہنچنے کا شکار ہوا اور اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔
 
😕 بھول نہیں گی یہ پچھلی نوجوانوں کے دور میں ہوا تھی، وہ سب کچھ اس وقت سے ہی دیکھ رہے تھے اور اس طرح کی حملے ہوئے تھے۔ پچھلی نوجوانوں کو وہی قوت نہیں ملتی تھی جو اب ملتی ہے، اس لیے ایسے حملے ہونے سے بھی پچھلے دور میں کبھی نہیں ہوئے تھے... ملا ہبی لہ کا حال یہ تو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیسے زندہ ہو رہا ہے، اس طرح کی سٹرائیکز سے پچھلے دور میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا... 😔
 
😱💥 ملا ہبی لہ کی حالات بہتDangerous Hain 🤯🚨 وہ انڈر گراؤنڈ کرایہ پر تھا لekin ab unki حفاظت ko 3 tarike se kiya ja raha hai 👮‍♂️🔒

1️⃣ عمری لشکر jo k 60,000 musalman joinda par majboor ho gaya hain wo uskaafi nahi hua 🤦‍♂️

2️⃣ Maulvi Abdul Nabi ka beta Haifiz Sadiqullah unki safalta ko kya jaana chahta tha ab vah apne jeevan ki mushkilein samajh raha hai 😩

3️⃣ Aur sabse zyada Mula Habeel ka khud ki raksha karna kiski bhi zarurat nahi 🤷‍♂️
 
Maula Habetullah ko is gharasat ka saamna karne ke liye code CTSC ki zaroorat hai, lekin yeh bhi ek tarah se sukhad hai kyunki unki qatilane waali taakat ko dikhana ab to mushkil ho gaya hai.

Kuch log kahenge ki Mulla Habetullah ka hamla karna sahi thi, aur unki qatilane waali taakat ko dekhna bhi sahi thi, lekin main sochta hoon ki yeh ek tarah se aik naya safar tha jismein unka hamla karna sahi tha, lekin usmein kuch galat aur galat ho gaye.

Taaliaban ke sarbaro mein se Mulla Habetullah ka hamla karna thoda aaraamdayak tha, lekin yeh bhi ek tarah se sukhad hai kyunki unki qatilane waali taakat ko dikhana ab to mushkil ho gaya hai.
 
یہ بات بھی تو واضح ہو گئی ہے کہ ملا ہبی لہ کی حفاظت کو کیسے سرانجام دیا جاتا ہے، اب یہی بات پتہ چلتی ہے کہ اس پر حملہ کس کی ذمہ داری ہے اور اس نے اچھی طرح سے محرک رکھنے کی جگہ میں بھی اس پر حملہ کیا ہو گا؟
 
ایک بار پھر افغانستان میں ہمیشہ سے لڑائیوں اور ہنسیں ہیں۔ ملا ہبی لہ کی وندہ وندگی کا Meaning ہوتا ہے کہ اس جیسے سڑکوں پر بھی طالبان نہیں بن سکتیں اور ان کی حفاظت کو انتہائی سخت سمجھنا ہی ہمیشہ پورا نہیں ہوتا۔ وہ شام ہٹانے والے حملے میں لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ پر حملہ کیا جبکہ وہ اپنی دھیمی سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر حملہ کیا۔ اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔ اس کو چھوڑتے ہی افغانستان میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہوا دیکھنا پڑتا ہے جیسا کہ طالبان کی قیادت سے نتیجہ ہمیشہ بدلنا پڑتا ہے۔ 🤯
 
ملا ہبی لہ کو بھی طالبان کے ساتھ اپنی لڑائیوں میں مہارت ایک نئے دور میں اچھی نہیں ہوتی جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی طرح سے فوج کی سرگرمیوں پر اپنے حملے کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ اب جب وہ زندہ ہیں تو یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ وہ شام ہٹانے والے حملے سے قبل بھی ہفتوں سے اسی علاقے میں موجود تھا، لेकین ایسا نہیں دیکھا گیا جس کے بعد وہ اپنے سربراہوں کی حفاظت کے لیے نکل دیا تھا۔
 
🤯 یہ ایک خطرناک موقع ہے جب ملا ہبی لہ اپنی زندگی کے اوپر کھیل رہا ہے۔ وہ پورے افغانستان میں طالبان کی قیادت کرتا ہے اور اس پر ایک حملے سے ان لوگوں کو بچانے کے لئے ناجائز تاخیر اور موثر پلیٹ فارم نہیں مل رہے جس کی وجہ سے وہ زندہ ہونے کی خبر ملا رہا ہے۔

اس کے علاوہ یہ ایک اہم بات ہے کہ اس حملے نے ان لوگوں کو مجروح کیا جس پر ملا ہبی لہ کی حفاظت کا ذمہ دار تھا اور وہی کہلاتا تھا کہ وہ اس کی زندگی کو یقینی بنانے کے لئے اس پر بہت سے قیمتی قوتوں کو انکار کر دیا ہے۔
 
ملا ہبی لہ کا حال بھی خوفناک ہے لیکن یہ سوال ہے کہ اس پر عمل کرنے والے لوگوں کی سزائش کیسے ہونے چاہئیے? وہ جو اسےKill کر رہے ہیں ان کو بھی اسی طرح کا عذاب دیا جائے؟ تاہم، یہ بات کوئی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں تالبان کی حکومت اس قدر بھرپور ہو گئی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے، ٹی سی کی سرگرمیوں کو ایک ہی جگہ سے نہ لگائی جائے اور لوگوں کو اپنی رائے مہسूस کرنے کا موقع ملتا جائے۔
 
ابھی تک یہ انچاراجی ملا ہبی لہ نے کیے گئے ایسی سرگرمیوں کا کیا فائدہ? وہ اپنے ساتھیوں پر بہت زیادہ اعتماد کرتا تھا، اور اب یہی وجہ ہے کہ وہ زندہ ہونے کی خبر ملی ہے! عمری لشکر کو چکیں تو اس میں سے کون سی شخصیات طالبان کے سربراہوں میں سے نکل پائیں گے? یہ انچاراجی بات ہے کہ جو لوگ طالبان کی جانب سے جہادی تربیت لے رہے ہیں، وہ اسی سرگرمیوں کو اپنے خلاف استعمال کر رہے ہیں!
 
اس وقت تک کہ یہ انشورنس نہیں کرتا، اس لئے پھر اس پر حملہ کرنے والے لوگ کچھ بھی حاصل کر سکتے تھے۔ ملا ہبی لہ کی حفاظت کو محفوظ بنانے میں ان کا کام اٹھا رہا ہے لیکن وہ اس بات پر دکھ بھر رہا ہے کہ اس نے بہت سے خطرناک حملے میں حصہ لیا تھا۔

ان کی جانب سے جو کچھ اور کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اپنے کارروائیوں سے خود کو منسلک کرنا چاہیں گے۔ اس لئے ان کے ساتھ رہنے والے لوگ کچھ نئے اور بہتر طریقے تلاش کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرسکتی ہیں۔
 
ملا ہبی لہ کے ساتھ ہونے والی کھینچ کو وہ تو کیسے باکرار نہیں مانتا? وہ صرف ایک شہری ہے، چاہے وہ طالبان کا سربراہ ہو یا نہ ہو انہیں بھی اپنے ملک میں محفوظ اور سہرائش یافتہ رہنا چاہئے
 
واپس
Top