طالبان کی قیادت ملا ہبت اللہ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس کے بعد وہ زندہ ہونے کی خبر ملی اور اس وقت کوڈ ٹی سی کا سامنا کر رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی قیادت کو اندرونی بحران کا سامنا ہوا جس نے 10 نومبر کو شام ہٹا ملا ہبت اللہ اخوندزادہ پر مرکزی جہادی مدرسہ میں قتل کی ایک ناکام کوشش کی۔
ملا ہبی لہ ہیں طالبان کے سربراہوں میں سے ایک جنہیں اس کی حفاظت کو انتہائی سخت سمجھا جاتا تھا۔ شام ہٹانے والے حملے میں لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ نے اپنی دھیمی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے لیکن اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔
حملے سے پہلے حفیظ صدیق اللہ کو ہلمند صوبے کے موسیٰ قلعہ ضلع کے رہائشی مولوی عبد النبی کا بیٹا تھا، اس نے عزم 215 آرمی کور میں شامل ہونے کی وجہ سے ہبت اللہ تک رسائی حاصل کرلی اور اسے جہادی تربیت دی گئی۔
ملا ہبی لہ کی حفاظت تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جن میں عمری لشکر شامل ہوتا ہے جو کہ 60،000 مسلح جنگجو پر مشتمل ہوتا ہے اور جس کی برا۔.
ملا ہبی لہ ہیں طالبان کے سربراہوں میں سے ایک جنہیں اس کی حفاظت کو انتہائی سخت سمجھا جاتا تھا۔ شام ہٹانے والے حملے میں لیفٹیننٹ حفیظ صدیق اللہ نے اپنی دھیمی سرگرمیوں کی وجہ سے اس پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے لیکن اب وہ زندہ ہیں اور قندھار کے قریب طالبان کی حراست میں ہیں۔
حملے سے پہلے حفیظ صدیق اللہ کو ہلمند صوبے کے موسیٰ قلعہ ضلع کے رہائشی مولوی عبد النبی کا بیٹا تھا، اس نے عزم 215 آرمی کور میں شامل ہونے کی وجہ سے ہبت اللہ تک رسائی حاصل کرلی اور اسے جہادی تربیت دی گئی۔
ملا ہبی لہ کی حفاظت تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جن میں عمری لشکر شامل ہوتا ہے جو کہ 60،000 مسلح جنگجو پر مشتمل ہوتا ہے اور جس کی برا۔.