وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے نئی تشکلیں دھار دیں ہیں، ان میں سے ایک اور عظیم ترین مہارت پرست چیف سیکیورٹی آفیسر عثمان ٹیپو کو ڈی پی او ساہیوال کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا، جبکہ اس نے ساہیوال رانا طاہر رحمان کو آئی جی ڈسپلن تعینات کیا۔
اس طرح آئی جی پنجاب نے تقرریوں اور تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، اس میں سے ایک ڈائریکٹر پی ایس او حمزہ امان اللہ کو چیف سیکیورٹی آفیسر وزیراعلیٰ پنجاب تعینات کر دیا گیا۔
ایس پی ڈولفن لاہور ارسلان زاہد کی خدمات وزیراعلیٰ آفس پنجاب کے سپرد کر دی گئی ہیں، اسی طرح ایس ایس پی آپریشنز ملتان احمد زنیر چیمہ کی بھی خدمات وزیراعلیٰ آفس پنجاب کے سپرب کر دی گئی ہیں۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے تقرریوں اور تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جو اس وقت کی سیاسی صورتحال کو بھی ظاہر کر رہا ہے۔
اس پچھلے عرصے میں پنجاب کیGovernance ki zaroorat پتھا چلی گئی ہے، اور اب وزیراعلیٰ مریم نواز نے ایسا کیا ہے جیسے کوئی دیکھ رہا ہو، مگر اس میں سے ایک بات یہ ہے کہ تقرریوں اور تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنا تو politicology ki baat hai لیکن دوسری بات یہ ہے کہ عثمان ٹیپو کو ڈی پی او سہیوال کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا، جو ایک حقیقی مشن کا رخ ہے۔
بھائی ابھی آج کل بھارتیان اپنے وزیر اعلیٰ کے ادارے میں توڑ پھوڑ کیا کیوں کرتے ہیں؟ ایس پی ڈولفن کو بھی آئی جی کے ادارے میں جانے پر توجہ دی گئی، نہ تو اس پر چیلنج کیا گیا، نہ ہی کسی نے اس پر سوشل میڈیا پر اپنی رائے تجویز کی
اس میں کچھ بات نہیں چلتی، وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا سے پتا چلا کہ انھوں نے ڈپٹی پی ایس او ساہیوال کو برطرف کر دیا ہے اور اس کی جگہ رانا طاہر رحمان نے لی ہے، یہ بات یقیناً چھپا کر کئی ڈپارٹمنٹ میں تبادلیں کروائی گئی ہیں اور اب بھی یہ نوٹیفکیشن جاری ہے، ان تمام تبدیلیوں کی سہولت کیا گیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اس کو کس طرح پہلے سے تلافی کر لیں گے
بہت متاثر ہوں ان تبدیلیوں سے، مریم نواز کے یہ فैसलے سے صلاحیتوں میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ ساہیوال کا عہدہ ڈپٹی پی ایس او کا بنیاد بن چکا تھا، لیکن آج انھوں نے ایک نئے دور کی شروعات کی ہے۔ رانا طاہر رحمان کو آئی جی ڈپلومacy میں تعینات کر کے ایسی تبدیلی کی بات ہوئی جو صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بھی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
اس کچھ تو نہیں ہوا پچھلے عہدے سے برطرف ہونے والا مہارت پرست چیف سیکیورٹی آفیسر کو اور دوسرا رانا طاہر رحمان کے تعین اور ایس پی ڈولفن کی servicing نئی تشکلیں دھارنے کے بعد جاری کردی گئیں تو یہ بھی لگتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ایس پی ڈولفن کو تعین کرنا صرف سیاسی طور پر بات چیت کا ایک دASTAN ہو گیا ہے، نہیں تو یہ کیسے اچھے کو باہر نکالے گا؟
اس مہان وزیراعلیٰ کی نئی تشکیلاں دھار دیا کروڑو اچھے، لیکن ان میں سے ایک سے بھی ہونے والے تبادلے تو جب تک یقینی نہیں ہوتے ہی ماحول کی گھنٹیاں دیکھنا پڑتی ہے। ساہیوال کو وہ چیف سیکیورٹی آفیسر بنا کر کیا ہوا ہے، یہ تو ایک حیرت انگیز بات ہے!
اس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس ہر ایک کی جگہ کی پالیسی ہے، وہاں تک کہ اس نے اپنی سے بھی مہارت پرست اور طاقتور چیف سیکیورٹی آفیسر کو ڈپٹی پی ایس او سہیوال سے دور کر دیا ہے، یہ تو کئی دہائیوں سے یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جگہ پر سب کو اپنی فیکٹری بنایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کا خلاف کار ہوجاتے ہیں، کیا یہاں کچھ ایسا نہیں تھا جو انہیں اپنی سے بھی محنت کرنے پر مجبور کریں؟
اس ٹپو کی تعینات اور برطرفی میں یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اب وہ نہ صرف دھارنی تھیں بلکہ سسٹم بھی ہیں۔ کیا ان کی نئی تعینات اور برطرفی میں کوئی ایسا مقصد نہیں ہے کہ وہ اسے ایک مہارت کا مظاہر بنائیں؟
چیف سیکیورٹی آفیسر کی تعینات میں یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے ہمارے صدر کے ساتھ کیسا رشتہ بنایا ہو؟ پچاس کروڑ کی قیمتی معلومات بھی یہی بات کی واضحیت دیتی ہیں۔
لیکن ایک بات بالکل آسان ہے کہ اس نئی تشکلیں کون سے رہیں گی?
:-/ میری رाय یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی نئی تشکلیں تو پوری طرح اچھی نظر اتیں لیکن عثمان ٹیپو کو ایس پی ڈولفن لاہور سے برطرف کر دیا جانا تو کچھ دیر پر بات ہوتی۔ اس کے بعد اچھا سے چل رہا ہے، لیکن آئی جی پنجاب نے بھی تقرریوں اور تبادلوں میں کیا ہے؟ ڈائریکٹر پی ایس او کو چیف سیکیورٹی آفیسر بنایا تو میرے لئے اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، جبکہ سہیوال رانا طاہر رحمان کو آئی جی ڈسپلن میں تعینات کیا جانا تو میرے لئے بھی یہی بات ہے۔
:-D
اسے دیکھیئے اس diagram:
```
+---------------+
|وزیراعلیٰ|
+---------------+
| |
| عثمان ٹیپو |
| |
+---------------+
| |
| برطرف کر دیا گیاہے
|
```
اس diagram سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے عثمان ٹیپو کو برطرف کر دیا ہے اور اب وہ کوئی بھی ریکارڈز اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔
اس طرح دیا diagram:
```
+---------------+
|وزیراعلیٰ|
+---------------+
| |
| سہیوال رانا طاہر رحمان |
| |
+---------------+
| |
| آئی جی ڈسپلن میں تعینات کیا گیا
|
```
اس diagram سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے سہیوال رانا طاہر رحمان کو آئی جی ڈسپلن میں تعینات کیا ہے۔
اس طرح دیا diagram:
```
+---------------+
|وزیراعلیٰ|
+---------------+
| |
| ڈائریکٹر پی ایس او حمزہ امان اللہ |
| |
+---------------+
| |
| چیف سیکیورٹی آفیسر بنایا گیا
|
```
اس diagram سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈائریکٹر پی ایس او حمزہ امان اللہ کو چیف سیکیورٹی آفیسر بنایا ہے۔
اس طرح دیا diagram:
```
+---------------+
|وزیراعلیٰ|
+---------------+
| |
| ایس پی ڈولفن لاہور ارسلان زاہد کی خدمات سپرد کیا |
| |
+---------------+
| |
| خدمات واپسی پر انہیں تعینات کیا گیا
|
```
اس diagram سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایس پی ڈولفن لاہور ارسلان زاہد کی خدمات سپرد کی ہیں اور اس طرح انھیں تعینات کیا گیا ہے۔
اس طرح دیا diagram:
```
+---------------+
|وزیراعلیٰ|
+---------------+
| |
| ایس ایس پی آپریشنز ملتان احمد زنیر چیمہ کی خدمات سپرد کیا گیا |
| |
+---------------+
| |
| خدمات واپسی پر انہیں تعینات کیا گیا
|
```
اس diagram سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایس ایس پی آپریشنز ملتان احمد زنیر چیمہ کی خدمات سپرد کی ہیں اور اس طرح انھیں تعینات کیا گیا ہے۔
عثمان ٹیپو کو ڈی پی او ساہیوال سے برطرف کرنا ایسے کچھ باتوں کی بتاؤتھی جو میرے ذہن میں آئی ہے، اس نے 2 سال پہلے میری اڈمنستریٹو سے گریجویشن کر لی تھی، ان کا ڈگری ایچ ڈی کرنے میں بھی کچھ عرصہ لگا، اب تو وہ چیف سیکیورٹی آفیسر کا عہدہ ہے اور اس کے بعد کوئی بات چیت نہیں تھی۔
میری ماں کہتی ہے کہ یہ طاقت کی حقداری ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس سے معاشرے میں واضح نہیں ہوا، اس کے لئے یہ تقرریوں اور تبادلوں میں بھی کوئی نہ کئی بات چیت کی جائے، پھر یہ بات بھی کیا جائے کہ ان سے کچھ بھی بات نہ ہوئی؟
اس طرح میری ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈپٹی پیو سہیوال کو برطرف کرنا اس کی علاوہ کیا وجوہات تھے، اور وہ اپنے کام پر نہیں رہے؟
اس گھریلو معاملے کو دیکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کیسے اپنے اداروں میں بات چیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تو کیا یہ معاملہ ہی نہیں تھا؟
اس گھنٹے میں بہت سارے تبدیلیاں ہوئیں، ایس پی ڈولفن کے ارسلان زاہد اور احمد زنیر چیمہ کی واپسی ایک اچھی بات ہوگی، لیکن اس بات کو محسوس کرنا مشکل ہے کہ نئی ترقیوں سے پہلے یہ تبدیلیاں کیا وجہ سے ہوئیں؟
یہ نئی تشکیلیں سیکھنا پڑتے ہیں کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی کس میزانی تھی، ایک بڑا ایجندہ اور کچھ نا کچھ کے ساتھ، پھر وہ اسے اپنے فैसलوں کا ذریعہ بنا دیتے ہیں… آپ کو بھی ایسا لگتا ہے؟
ایس پی ڈول芬 لاہور ارسلان زاہد کی خدمات وزیراعلیٰ آفس پنجاب کے سپرب کر دی گئی ہیں، یوہ سب ایک دوسرے سے بڑھتے جاتے ہیں، اب سے وزیر اعلے کی ادارے میں ایس پی ڈولفن کو اس کا کام بھی ڈھونڈنا پڑے گا؟