انبیاء کرامؑ، صحابہ کرامؓ اور نیک لوگوں والا نام ہو۔
اسلام نے کبھی بھی اپنے بچوں کی تربیت پر سختی نہیں کی بلکہ قراٰن کریم میں ایسے رتبے سے توجہ دینہ ہے اور انسان کو تسلی دی جاتی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے اور اﷲ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
قراٰن کریم کی ارشاد باری تعالی کے مفہوم سے ملتا ہے:
’’اور تم اپنی اولاد کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ (دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘
اس حدیث سے ملتا جاتا ہے کہ پہلے چار سال تک بچوں کو دودھ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کی diets پر مشتمل diet دی جاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔‘‘
انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ نے اپنے بچوں کو کھانا شروع کرتے وقت ایک بات سکھاتی تھی، جیسا کہ حضرت ابی رافع بن عمرو الغفاری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو فرمایا: ’’تیری آواز سنیو۔‘‘ پھر مجھے نیک کھانا اٹھانے پر مجھے اس پر رکاوٹ نہ ہونے کی اجازت دی گئی، پھر جب مجھے ایک چمچ اِسمار سے کھانا ملا تو مجھے سنیا گیا اور میں اسے بھاپ سے ہٹادے تھے۔
اس حدیث کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بچوں کو نیک اور لذیذ کھانا چاہنا تھا جو ان کی آواز سے مل جائے اور جسے میں نہ پاوں اُٹھانے پر مجھے ایک چمچ اِسمار سے کھانا ملا تو مجھے اس پر رکاوٹ نہ ہونے کی اجازت دی گئی۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہوا کہ جب میں ان کے ساتھ تھا تو نبی کریم ﷺ ان کی طرف ایک بچے کے سر لگا کر آیں اور ان کو کہنے لگے: ’’ایسے ایک ہمارے وہ بنو، اس طرح کھاتے جائیں‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ سے مروی ہوا کہ نبی کریم ﷺ اپنے پیارے بچے کے سر پر گھونٹے رہتے تھے اور ان کو ایک وہ بناتے تھے، جیسا کہ ’’اس طرح دودھ پلاو‘‘ اور جب ان سے ایسی بات نہیں کرنی پڑتی تو ان کی طرف ایک گھونٹے رہتے ہوئے، وہ بچے اس کے سر پر رکھ جاتا تھا۔
بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلانے کا حکم دیا گیاہے جو اس کے بعد اپنی diets پر مشتمل diet میں مومن بنے گا۔
اسلام نے کبھی بھی اپنے بچوں کی تربیت پر سختی نہیں کی بلکہ قراٰن کریم میں ایسے رتبے سے توجہ دینہ ہے اور انسان کو تسلی دی جاتی ہے کہ ان کے روزی کے اسباب ضرور اپنائے لیکن روزی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے ان کی اور ہماری روزی کا ذمہ خود لیا ہے اور اﷲ رب العزت جس بات کو احساناً اپنے ذمہ لے لیں تو اس میں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
قراٰن کریم کی ارشاد باری تعالی کے مفہوم سے ملتا ہے:
’’اور تم اپنی اولاد کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں یہ (دودھ پلانے والا حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے۔‘‘
اس حدیث سے ملتا جاتا ہے کہ پہلے چار سال تک بچوں کو دودھ دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کی diets پر مشتمل diet دی جاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں۔‘‘
انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ نے اپنے بچوں کو کھانا شروع کرتے وقت ایک بات سکھاتی تھی، جیسا کہ حضرت ابی رافع بن عمرو الغفاری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو فرمایا: ’’تیری آواز سنیو۔‘‘ پھر مجھے نیک کھانا اٹھانے پر مجھے اس پر رکاوٹ نہ ہونے کی اجازت دی گئی، پھر جب مجھے ایک چمچ اِسمار سے کھانا ملا تو مجھے سنیا گیا اور میں اسے بھاپ سے ہٹادے تھے۔
اس حدیث کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بچوں کو نیک اور لذیذ کھانا چاہنا تھا جو ان کی آواز سے مل جائے اور جسے میں نہ پاوں اُٹھانے پر مجھے ایک چمچ اِسمار سے کھانا ملا تو مجھے اس پر رکاوٹ نہ ہونے کی اجازت دی گئی۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہوا کہ جب میں ان کے ساتھ تھا تو نبی کریم ﷺ ان کی طرف ایک بچے کے سر لگا کر آیں اور ان کو کہنے لگے: ’’ایسے ایک ہمارے وہ بنو، اس طرح کھاتے جائیں‘‘
ام المومنین سیدہ عائشہ سے مروی ہوا کہ نبی کریم ﷺ اپنے پیارے بچے کے سر پر گھونٹے رہتے تھے اور ان کو ایک وہ بناتے تھے، جیسا کہ ’’اس طرح دودھ پلاو‘‘ اور جب ان سے ایسی بات نہیں کرنی پڑتی تو ان کی طرف ایک گھونٹے رہتے ہوئے، وہ بچے اس کے سر پر رکھ جاتا تھا۔
بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلانے کا حکم دیا گیاہے جو اس کے بعد اپنی diets پر مشتمل diet میں مومن بنے گا۔