تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے اور اس کو صرف نجی شعبے میں سونپنا بھی نہیں چاہئیے۔ اسکولوں کا معیار زیادہ نہیں ہوگا، بلکہ عام طالب علم کو بہتر تعلیم ملے گی۔
صوبائی حکومت نے اپنے فوری اقدامات میں سندھ کی سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہت ہی کم درجے پر رکھا ہوا ہے، یہ نہیں چاہئیے کہ تعلیم کی ذمے داری صرف ریاست ہی پورا کر سکے، اس لئے انہوں نے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ میں 500 اسکول قائم کرنے کی تصدیق کی ہے۔
اس معاہدے میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن اور حکومت سندھ کےEducation Department کے ملازمین شراکت داری کی ہوئی گئے ہیں جس طرح اس معاہدے کے تحت پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ میں 500 اسکول قائم کیے جائیں گے۔
اس معاہدے کے تحت ان اسکولوں کو حکومت سندھ کی جانب سے ایک نیا نظام ذمے داری میں شامل کر دیا گیا ہے، جس طرح اس معاہدے کے تحت یہ منصوبہ عمل میں آئے گا کہ مختلف غیر سرکاری اداروں کو سندھ کی सरकار نے ان اسکولوں کی انتظامی ذمے داری میرٹ پر دی جائے گی، وہ ایسے ہیں جو زیادہ کچھ کرنے میں معقول اور منظم ہوں گے۔
اس معاہدے کے تحت اسکولوں کو ساتھ نئے نظام میں شامل کر دیا گیا ہے، جس سے ان کی بنیادی ذمے داری بھی میرٹ پر رکھی گئی ہے اور اس معاہدے کے تحت حکومت نے یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ ان اسکولوں کو ساتھ ایسے اساتذہ ملازمت دینے والے رہن گئے جس کی بنیاد پر میرٹ کی بنیاد پر، مگر نتیجے میں ان کے ہاتھی اساتذہ کی بھرتی میں ایک اور نقصان پیدا ہوتا رہے گا جس سے 10فیصد نشستیں غریب طلبہ کے لیے میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی، جو معقول نہیں ہوگا۔
اس معاہدے سے پہلے ایسا محض یقین دلاتا تھا کہ سندھ کی سرکاری اسکولوں میں بھی نئی وہی بدلتاریاں آئیں گی جس نے ان تعلیمی اداروں میں بھی مظالم پیدا کر دیے تھے، اس معاہدے کے تحت 500 اسکول قائم کیے جائیں گے جن میں حکومت سندھ کے ذمے دار تعلیم کے علاوہ دوسرے غیر سرکاری ادارے بھی شامل ہوں گے...
ایک ڈائامنڈ () اس معاہدے کی طرح ہی کیا جاتا ہے، جس میں ایک ساتھ تعلیم کو انعام دینے والے اداروں کی شراکت بھی شامل ہوتی ہے، لیکن وہ معاہدہ اس پر مبنی تھا کہ ان اسکولوں کو وہی ذمے دار تعلیم ملا جائے گی جو میریٹ میں اچھی اور میرٹ سے بھرپور، لیکن یہ معاہدہ ایسی نہیں تھا...
اس طرح اس معاہدے کے تحت 500 اسکول قائم کیے جائیں گے، لیکن ان میں بھی وہی مظالم پیدا ہو سکتے ہیں جن کو پہلے وہ نئی وہ بدلتاریاں رکھی ہیں اور اس کا نتیجہ ایسے اساتذہ کے لیے بھی ہو سکتا ہے جنہیں میرٹ پر ایک ایسا منصب ملا جائے گا جو ان کے لیے معقول نہیں ہوگا...
ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدے میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن اور حکومت سندھ کے Education Department کے ملازمین کو صرف انہی 500 اسکول کی معیشت پر زور دینا پڑگا جو ایسے غیر سرکاری اداروں کو مل گئے ہیں جن کے کچھ بھی کارکردگی میں نہیں آتی، یہ تو ان اسکولوں کی معیار میں کمی کی طرف ایک رستہ ہے لیکن اس سے عام طالب علم کو بہتر تعلیم ملنے کا ایسا فرصت نہیں ملا گا۔
Wow 500 اسکول قائم کرنے کا یہ منصوبہ بھی ایک اور نقصان ہوگا۔ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ میں 500 اسکول قائم کرنے کی تصدیق ایسے ہیں جیسے اس کے نتیجے میں سچمے اور معقول تعلیم کی صورتحال کمزور ہو جائے گی۔
یہ سندھ میں ایسا نئا معاہدہ ہے جو کہتا ہے کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت 500 اسکول قائم کیے جائیں گے اور حکومت سندھ ان کے لیے ایک نیا نظام ذمے داری میں شامل کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ اس معاہدے کے تحت جس طرح ان اسکولوں کی انتظامی ذمے داری غیر سرکاری اداروں کو میرٹ پر دی گئی ہے، وہ بھی ایسی ہیں جو زیادہ کچھ کرنے میں معقول اور منظم ہوں گے، لہذا یہ معاہدہ اسکولوں کو جس معیار پر انھیں ملازمت دینا پڑے گا وہ معیار نہیں کیا گیا ہوگا، جو کہ عام طالب علم کو بہتر تعلیم ملنی چاہئیے۔
اس معاہدے سے پریشانی ہو رہی ہے کہ کیا اسکولوں کی معیار پر بھی ایسی اہمیت نہیں ہے؟ حکومت کو یہ تو بھی سمجھنا چاہئیے کہ ان 500 اسکولوں میں جب سے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت بہت سے غیر سرکاری ادارے شامل ہوگئے ہیں تو وہ ان تعلیمی معیاروں کو لازمی نہ بنایا جا سکتا ہے جس سے اسکولوں کا معیار بھی اتنا اچھا نہیں رہے گا۔ یہ تو ایک پہل میں وہ لوگ جو تعلیم سے بہت مہربان ہیں ان کا دخل ادا کرنے کا ایک ہی طریقہ بن گیا ہے لیکن اس کی وجہ سے 10فیصد شعبہ جات کو ہمارے بچوں کی تعلیم میں کمی مل سکتی ہے۔
عقلानے والو! یہ ایک اور واقعہ ہو رہا ہے جو تعلیم کے حوالے سے دھکیل دے رہا ہے۔ ان 500 اسکولز میں بھی یہی سچائی بنتی جائے گی کیوں نہیں؟ کھوٹوں کا ایسا معاہدہ جو تعلیم کے حوالے سے دھکیلتا رہا ہے تو ایک بار اسے کر لیجئے تو نکل جائے گا؟
یہ بات بھی یقینی طور پر چلے گا کہ ان اسکولوں میں 10 فیصد نشستیں ایسے طلبہ کو دی جائیں گی جن کی میرٹ سے نا پیداوار تعلق رکھنے والے بچے ہیں، اور اس کے ذریعے وہاں کی معیشت میں بھی ایسی نقصان دہ تبدیلیوں کا مظاہرہ ہوگا جو نا پیداوار تعلق رکھنے والے لوگوں کو مزید گھبراے گا۔
یہ واضح ہے کہ یہ معاہدہ سندھ کو کمزور بنا رہا ہے اور اس میں 500 اسکول قائم کرنا، تو اس پر وہ لوگ نہیں ملازم ہوں گے جو اسکولوں کی بنیادی پوری کرتے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غریب طلبہ کو بھی نئی تعلیم مل سکے گی، لیکن ان اسکولوں کو ایسے ذمے دار ملازمین دیکھنا ہوگا جو بھرپور طور پر کام کرسکتے ہیں اور یہ تو واضح ہے کہ یہ معاہدے سے اسکولوں کی معیار میں کمی ہوگئی ہے، مگر یہ اچھا نہیں لیکن اگر وہ اسکول اچھے ہوں تو بہتر ہوگا۔
Wow یہ تو ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا خیال بھی کرنا چاہئیے اور اس کی تکمیل بھی ضروری ہوگی، لیکن یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ سندھ میں ان 500 اسکولز میں کوئی improvement آئے گی یا نہیں۔_interesting
بھی کچھ نہ کچھ دیکھتے رہنا پڑتا ہے یہ معاہدہ… سندھ کی सरकار ایسے 500 اسکول قائم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے، جس میں ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور ان اسکولوں کو بھی ساتھ ایسی اسی ذمے داری دی گئی ہے جو تین سال پہلے سے قائم ہونے والے اسکولوں کو دی گئی تھی۔ یہ تو اس بات کی ایک نوبت ہے کہ وہ جس معیار پر انھوں نے آپریشنز شروع کیے تھے وہ ہی معیار ساتھ لینا چاہئیں گے…
اس معاہدے میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن، دی سٹیزنز فاؤنڈیشن اور حکومت سندھ کے Ed Department کی شراکت ہوئی ہے جو اس معاہدے کے تحت پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سندھ میں 500 اسکول قائم کیے جائیں گے
اس معاہدے کے تحت ان اسکولوں کو ایک نیا نظام ذمے داری میں شامل کر دیا گیا ہے، جس طرح یہ منصوبہ عمل میں آئے گا کہ مختلف غیر سرکاری اداروں کو سندھ کیसरکار نے ان اسکولوں کی انتظامی ذمے داری میرٹ پر دی جائے گی، لیکن یہ ایسا ہونا چاہئیے کہ وہ ایسے ہوں جو زیادہ کچھ کرنے میں معقول اور منظم ہوں گے
اس معاہدے کے تحت اسکولوں کو ساتھ نئے نظام میں شامل کر دیا گیا ہے، جس سے ان کی بنیادی ذمے داری بھی میرٹ پر رکھی گئی ہے اور اس معاہدے کے تحت حکومت نے یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ ان اسکولوں کو ساتھ ایسے اساتذہ ملازمت دینے والے رہن گئے جس کی بنیاد پر میرٹ کی بنیاد پر
یہ بات بھی کوئی نہیں کہ سندھ میں موجود اسکولوں میں بھی ایسا ہونا چاہئیے جسے پاکستان کی دوسری ریاستوں میں موجود اسکولز کے معیار کو سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ بھی بات سچ ہے کہ اگر سندھ ایدچن کونسل کو ان اسکولوں کی انتظامیت کرنا ہو تو وہ ہمارے ملک کے باقی حصوں میں موجود اسکولز کے معیار کو بھی دیکھیں گا اور اس کے مطابق ساتھ لگا کر ان کی انتظامیت کرے گی۔
اس معاہدے سے تو یہی نہیں ہوتا کہ عوام میں بدسلوکی کی بھرپور رونما ہو جائے گے، کلاس میں ناقابل توجہ معیار پر لگتے ساتھ اسکولوں کو بھی کچھ اچھا نہیں دیکھنے پڑو گا۔
اس معاہدے میں جو وعدہ کیئے گے ان پر لگایا جانا نہیں چاہیے، وہاں تک کہ اس معاہدے سے کوئی ایسا رہن گئے جس کی قوت اور صلاحیت کے حساب سے وہ اس معاہدے کو پورا کر سکے، بھلا اس معاہدے میں سندھ کی سرکاری اسکولوں کے معیار کو 500 نئے اسکول قائم کرنے کے ذریعے کم درجے پر رکھنا اچھا نہیں، لگتا ہے ان میں یقین اور ثبوت بھی محو اللہ پئے گئے ہیں۔