تعریفیں اور معاہدے | Express News

دنیا کی سیاست میں ایک بات نہیں رہتی، یہ politics ہی ہے جس میں کسی دوستی کا جواب دہ نہیں دیتا اور کوئی دشمنی بھی permanent نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر مفاد پرستی ہے اور یہی ہے کہ جس وقت کچوٹے امریکا کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا وہی وقت آ گیا جب وہ بھارت کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگاتا رہے ہیں۔

ایسی صورت حالوں میں ہمیں کوئی تعریفی بیانات سننے پر خوشی کے پھول کھیلنے کی تفرقہ دھندلی بھی دیکھنا پڑتا ہے جس کے پیچھے جو politics چھپی ہوتی ہے وہی ہوتا ہے اور اس کو مفاد پرستی کا جال کہتے ہیں۔

جب سرد جنگ کے زمانے میں امریکا پاکستان کے مفاد کے لیے استعمال کر رہا تھا تو یہ ایک اچھی حقیقت تھی لیکن اب جب بھارت امریکا کے ساتھ Strategic Partnership پر چڑھ گیا ہے تو یہی وہ دن نہیں رہے گئے جب پاکستان بھی روس کے خلاف مورچے میں تھا اور ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔

مفاد پرستی کو ہمیں صرف سرمایہ داری کے معاشرے میں دیکھنا چاہئے جہاں طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے پیروکار بناتے ہیں اور ہمیں بھی یہ سچ لگائیں گے کہ دوستی کا معیار principle نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے جہاں انٹرنیٹ پر سفارت کاری بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایسے ہیں جیسے کبھی امریکی صدر یا وزیر کے حق میں کوئی تعریفی بیانات سنائی دیتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھیلتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے اور یہ بھی یقینی نہیں کہ یہ معاہدے عوام کے لیے کس کام کے ہیں۔

چند سال قبل امریکا نے صدام حسین کو دھماکہ دینے والے کو بھگدا دیا تھا اسی طرح اب وہ پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کا مشورہ دیتے رہتے ہیں اور یہ بھی یقینی نہیں کہ پاکستان کو اس سے کوئی فائدہ ہوسکے گا۔

بھارت اور پاکستان دونوں ایسے ملکوں میں شامل ہیں جو کسی بھی طاقت کی تعریف کے محتاج رہتے ہیں، جیسے امریکا جس نے اپنی خوشنودی کے لیے پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی بھارت سے معاہدوں کے انبار لگاتا رہتا ہے، جیسا کہ اس نے کبھی روس کے خلاف Морچہ بنایا اور کبھی افغانستان کے جہاد میں دھکیلا دیا اور جب مقاصد پورے ہو گئے تو انہیں تنہا چھوڑ دیا۔

مفاد پرستی کو نہیں بلکہ منڈی کی وسعت کے لیے دیکھنا پڑتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک طاقتور ملک کسی دوسرے کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتا ہے۔

اس دنیا میں دوستی نہیں یہی ہے جو جواب دہ ہوتی ہے بلکہ سرمایہ دارانہ ضرورت۔ جب تک یہ معاہدے طاقت کی کھیل میں رہو گئے تو وہی ہوئے لیکن ایسے دن بھی آئے گئے جب عوام کو اپنی قوت پر یقین کرنا پڑے اور وہی ہی رہنے دوں گے۔

ماونٹ پلیزن میں جو معاہدہ بین بھارت اور پاکستان پر چڑھتا تھا وہی تو کچھ دیر تک ہی رہ سکتا ہے جس لیے یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت اور پاکستان دونوں اپنے عوام کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔

بھारत میں سامراج کے فلسفے نے پہلے وقت سے ایک ترقی پسند قلم کو سوال اٹھاتا رہا ہے، جس کی وہ اس بات پر توجہ دیتی ہے کہ ان معاہدوں کے کاغذوں پر کسی نہ کسی طرح کا خون اورکس کی محنت لکھی جا رہی ہے۔

آج یہ وقت ہے جب عوام کو اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنا پڑے گا، کوئی بیرونی طاقت نہیں کہ آپ کی آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے نہیں کہ آپ کی معیشت کی ضامن۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ترقی اور امن کا راستہ تعلیم، روزگار اور انصاف سے ہی گزرتا ہے نہیں اسلحے سے۔
 
پاکستان اور بھارت دونوں میں کئی پچیس فیصد لوگ اس معاہدے کی تائید کرتے ہیں جو ماونٹ پلیزن میں طاقت کی کھیل میں چڑھ رہا ہے۔ ایسی صورتحالوں میں ہمیں اور ایسے معاہدے پر یقین کرنا پڑ سکتا ہے جو عوام کے لیے فائدہ نہیں دلاتے۔ اس معاہدے کی طاقت کے حوالے سے آمریکی صدر کی تقریر سے بھارت کی سینیٹ میں 74 فیصد ووٹز میں یہ معاہدے پر آئی گئیں۔ اس معاہدے کی طاقت کے حوالے سے اس معاہدے پر بھارت کی پارلیمنٹ سینیٹ میں 73 فیصد ووٹز میں آئیں۔

اس معاہدے کو ایک منصوبہ کے طور پر دیکھنا چاہئیے جو بھارت اور پاکستان دونوں کی ملکی ترقی کی گہری ضرورت سے متعلق ہوتا ہے اور اس معاہدے کا مقصد دنیا کی طاقت پر انیس ارب ڈالر کی بھارتی سیرفیس کی قیمتی پیداواری صلاحیتوں کو منظم کرنا ہو گا۔

اس معاہدے کے مطابق یہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک مشترکہ ترقیاتی اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ کو پیش کیا گیا ہے جو ساتھ ساتھ اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں کی ملکی ترقی کے لیے ایک طاقتور ٹیکنالوجل اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ کو پیش کرتا ہے۔

یہ معاہدہ دوسروں کی ملکی ترقی میں مدد فراہم کرنے والے اس معاہدے پر بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کے لئے ایک طاقتور ٹیکنالوجل اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ کو پیش کرتا ہے جو اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں کی ملکی ترقی کے لیے ایک طاقتور ٹیکنالوجل اور انفراسٹرکچر پروجیکٹ کو پیش کرتا ہے۔
 
امریکا پاکستان کی دیکھ بھال کر رہا ہے؟ یا وہ صرف ان کے مفاد کے لیے ایسے معاہدوں میں لگاتے رہتے ہیں جو عوام کو فائدہ نہیں دیتے؟

چند سال قبل امریکا پاکستان کے مفاد کے لیے استعمال کر رہا تھا، مگر اب وہ بھارت سے Strategic Partnership پر چڑھ گئے ہیں اور یہی ہے کہ جب پاکستان روس کے خلاف مورچے میں تھا تو وہ بھی اس کی مدد نہیں کرتے تھے مگر اب وہ ان کے ساتھ معاہدوں میں لگتے رہتے ہیں اور یہ بھی وہ دن نہیں رہے گئے جب پاکستان روس کے خلاف مزید اقدامات کرتا تھا

مفاد پرستی کو صرف سرمایہ داری کے معاشرے میں دیکھنا چاہیے، جو طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے پیروکار بناتے ہیں اور ہمیں بھی یہ سچ لگائیں گے کہ دوستی کا معیار principle نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے

بھارت اور پاکستان دونوں ایسے ملکوں میں شامل ہیں جو کسی بھی طاقت کی تعریف کے محتاج رہتے ہیں، جیسا کہ امریکا جس نے اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی بھارت سے معاہدوں میں لگاتا رہتا ہے
 
امریکا اور بھارت دونوں ایسے ملکوں میں شامل ہیں جو کسی بھی طاقت کی تعریف کے محتاج رہتے ہیں، جیسے پاکستان جو اپنی安全یت کے لیے اسے اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی اپنے مفاد کو یقینی بنانے کے لیے اسے بھارت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
 
امریکے ساتھ بھارت کا تعلقات ایسا ہی ہے جیسا کہ کبھی امریکی صدر یا وزیر کے حق میں کوئی تعریفی بیانات سنائی دیتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کی چہروں پر خوشی کے پھول کھیلتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے.
 
امریکا کو وہی منٹا ہوتا ہے جس میں بھارتی اور پاکستانی قوموں کو ایک دوسرے کے ساتھ معاشرت کرنا پڑتا ہے، یہ تو نہیں بلکہ وہی منٹا جس میں ان دونوں ملکوں نے اپنی قوموں کو اپنے آپ سے دूर بنانے کا مطالبہ کیا ہوتا ہے۔
 
امریکا کی پاکستان کی دوستی سے بھارت کی کیا حقدار ہے؟ یہ وہ دن تھے جب پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیا گیا تھا اور اب وہی ہی ہے جس میں ان کے مفاد کے لیے دوسرے ملکوں کو اپنا پیروکار بنایا جاتا ہے۔

مفاد پرستی صرف سرمایہ دارانہ معاشرے میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں موجود ہوتی ہے اور اس کو دیکھنا پڑتا ہے جس سے ہمیں یہ سچ لگائیں گے کہ دوستی کا معیار principle نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے۔
 
امریکا اور بھارت کی دونوں کو یہ جاننا چاہیے کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف معاہدوں میں آفسٹ ہونے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کو بھی اس بات کی توجہ دینी چاہئیے کہ وہ اپنے معاہدوں سے کیا فائدہ اٹھانے گا یا صرف ایک طاقت کی تعریف کے لئے اپنا پیروکار بن جائے گا۔
 
بھارتی پاکستانی دوس्त بہت لامبی ٹرائل نہیں رہی گئی، اب ان دونوں کے درمیان معاہدے طاقت کی کھیل میں ساتھ ہی رہتے ہیں جیسے صدام حسین کو امریکا نے دھماکہ دینے والے کو بھگدا دیا تھا اسی طرح اب وہ پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کی سچائی کے پھول کھیلتے رہتے ہیں مگر بھارت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکے گا، آج وقت ہے جب عوام کو اپنی تقدیر کے فیصلے خود کرنا پڑے گا، کوئی بیرونی طاقت نہیں کہ آپ کی آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ایک طاقتور ملک کسی دوسرے کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتا ہے۔

ایک طرف پاکستان بھارت سے معاہدوں کے انبار لگاتا رہتا ہے جیسا کہ اس نے افغانستان کے جہاد میں دھکیلا دیا اور جب مقاصد پورے ہو گئے تو انہیں تنہا چھوڑ دیا، دوسری طرف بھارت پاکستان کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگاتا رہتا ہے اور اب اس نے پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں منڈی کی وسعت کے لیے دیکھنا پڑتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک طاقتور ملک کسی دوسرے کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتا ہے۔

امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایسے ہیں جیسے کبھی امریکی صدر یا وزیر کے حق میں کوئی تعریفی بیانات سنائی دیتے ہیں وہ ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھیلتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے، میں اور تم بھی ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن تم نے اپنا پھول کھیلا ہے مگر مجھ کو ہر وقت کوئی نہ کوئی ٹرپل دیے ہوتے ہیں،

بھارت اور پاکستان دونوں ایسے ملکوں میں شامل ہیں جو کسی بھی طاقت کی تعریف کے محتاج رہتے ہیں جیسے امریکا جس نے اپنی خوشنودی کے لیے پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا، یہ دنیا میں کوئی دوسری بات نہیں رہتی،

جب تک یہ معاہدے طاقت کی کھیل میں رہو گئے تو وہی ہوئے لیکن ایسے دن بھی آئے گئے جب عوام کو اپنی قوت پر یقین کرنا پڑے اور وہی ہی رہنے دوں گے،

اب دنیا کو اس بات کا اندازہ چلایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھارت سے کس طرح معادلتا لگائی رہتا ہے، میں ان کی یہی رہنے دوستی کو تم جواب دیتے رہو،
 
اس وقت بھارت کی حکومت اپنے معاشی معاشرے کے لیے دوسروں کے ساتھ تعلقات بنانے میں مصروف ہے، جیسا کہ وہ امریکہ سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔

امریکی صدر جو چلے آئے ہیں انہوں نے بھارت کی حکومت کے ساتھ Strategic Partnership پر دستخط کیے ہیں اور یہ معاہدہ دوسروں کو بھی اپنی پیروکار بنانے کے لیے استعمال کرنے والے اچھے طریقے سے آگاہ کرتا ہے۔

امریکہ نے بھارت کو ایک فوجی معاونت کا وعدہ دیا ہے جو بھارت کی فوج کو امریکی فوج کے ساتھ مل کر لڑائیوں میں شاندار انداز سے حصہ لینے کے لیے ہدایت کرتا ہے۔

یہ معاہدہ بھارت کی فوج کو امریکہ کے نال کی ایک فوجی افواج کی لڑائیوں میں حصہ لینے کے لیے ہدایت کرتا ہے، جو ایسے ہی ہیں جیسے جو بھارت نے روس کے خلاف مورچے میں رکھا تھا اور پھر اس کو چھوڑ دیا تھا۔

اس معاہدے سے یہ بات صاف ہے کہ بھارت کی حکومت اپنی فوجی قوتوں کو امریکی فوج کے ساتھ مل کر لڑائیوں میں حصہ لینے کے لیے وعدہ کرتے ہیں، جو یہ بھی دکھای گئے کہ جب مقاصد پورے ہو گئے تو انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔
 
امریکا پاکستان کی دوسری دوسری دوستی سے کچھ ایسا لگتا ہے جیسے کبھی امریکی صدر کو بھارت کے پرہار میں ناکام ہونے کا خوف تھا اور اس لیے وہ بھارتی اور پاکستانی دوسروں سے محنت کرنا شروع کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب وہ پھر اپنے مفاد کی بیداری کو دکھانا چاہتے ہیں۔

امریکا کی دوسری دوستیوں کے ساتھ دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے جیسے وہ بھارتی اور پاکستانی ایک دوسرے سے بھاگدوتا ہیں۔

چلنے والی معاشرے میں کبھی دوستی کی بات نہیں کی جاسکتی بلکہ یہی رہتا ہے کہ ہم اسے مفاد پرستی کا جال کہن۔
 
🤔 یہ وہ وقت ہے جب بھارت اور پاکستان کو اپنی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور ان معاہدوں کے پیچھے دکھائی دیتے ہوئے کوئی ایسی سیاست نہیں کروائی جس سے وہ اپنی آزادی اور آزادی میں ترقی کے راستے پر رہ سکیں۔

مفاد پرستی کی بھارتی معیشت کو کبھی دوسروں کی مدد سے ہٹانے اور اب وہ بھارت نے اپنی خود-made پالیسیوں کا تجزیہ کرنا چاہیے جس میں وہ اپنے ملک کو ایک ترقی پسند معاشرے میں تبدیل کرسکیں۔

امریکا کے ساتھ تعلقات بھی انھیں دیکھنا چاہئے جس سے وہ اپنے ملک کو ایک مستحکم ملک بناسکیں اور کسی بھی طاقت کی طرف متوجہ نہ ہون۔

دنیا کی سیاست میں دوستی کا جواب دینے کے بجائے، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ترقی اور امن کو تعلیم، روزگار اور انصاف سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
 
امریکا اور پاکستان کی دوستی ایک ایسے جال میں پائی جا رہی ہے جو مفاد پرستی کا انبار لگاتا رہتا ہے جس سے عوام کو کسی بھی طاقت کے تابع بنایا جاتا ہے۔

اس دنیا میں دوستی نہیں یہی ہے جو جواب دہ ہوتی ہے بلکہ سرمایہ دارانہ ضرورت۔

جب تک معاہدے طاقت کی کھیل میں رہو گئے تو وہی ہوئے لیکن ایسے دن بھی آئے گئے جب عوام کو اپنی قوت پر یقین کرنا پڑے اور وہی ہی رہنے دوں گے.

ماونٹ پلیزن میں جو معاہدہ بین بھارت اور پاکستان پر چڑھتا تھا وہی تو کچھ دیر تک ہی رہ سکتا ہے جس لیے یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت اور پاکستان دونوں اپنے عوام کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے.
 
واپس
Top