وزیراعلیٰ کا منصب سنجیدگی کا متقاضی ،ٹکراؤکسی مسائل کا حل نہیں ہے: ایمل ولی

مینڈک

Well-known member
وزیراعلیٰ کا منصب سنجیدگی کا متقاضی نہیں ہوسکتا، ٹکراؤ ایسی صورت حالوں میں بھی حل نہیں ہوگا۔ واضح طور پر وزیراعلیٰ کی سہولت کے حق میں ہم رہائشیہ صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے اس بات کی دھمکی کیا گیا ہے کہ اس کی سرحدی علاقوں پر چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور (Chief Executive Turnover) بھی اپنے آئے وقت ممکن نہیں ہوسکتا، یہ بات سنجیدگی کا مطالبہ ہے اور واضح طور پر اس سے ٹکراؤ کو انکار کرنا ہوتا ہے جو صوبے کے لیے بھی خطرناک ہوسکتا ہے، یہ بات واضع طور پر معیار کی سنجیدگی میں سوجھت ہوئی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کا جس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ اس سے مذہبی جذبات کو ہوا دینا اور بھڑکانا ہی رہا، جس کی وجہ سے کتے کباندھنے والے بیان میں مذہبی حوالے دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسے مذہبی جذبات کو ہوا دینا اور بھڑکانا تو کسی ذی شعور شخص کی جانب سے نہیں کرنی چاہئیے، یہ بیان مساجد کی بےحرمت کے سوا بھی کچھ نہیں ہوسکتا، اس طرح مزید ٹکراؤ کا باعث بن جائے گا اور واضع طور پر کسی ایسے بیان کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا جو صوبے کی حرمت کا خاتمہ کررہا ہو، اس طرح کی حرکت سے بھی مزید ٹکراؤ کا امکان ہوتا ہے اور واضح طور پر یہ بات سنجیدگی کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ عوام اور ریاست کے درمیان بہت کم فاصلہ بنائیں اور بدعتمادی ختم کریں۔
 
ایسا نہیوں، وزیر اعلیٰ کے منصب سے کسی کو سنجیدگی نہیں مل سکتی، وہ صرف ایک عہد ہوتا ہے اور ان کی مدdت تک وہ اپنے معاملات میں ہمیشہ مایوس ہو جاتا ہے، اور ٹکراؤ بھی اس کے لیے ایک سچا خطرہ ہوتا ہے اور صوبے کی جانب سے اس بات پر دھمکی دینا تو سنجیدگی کا مطلب نہیں ہے بلکہ وہیں ہی تنگ آ جاتا ہے، اور senator Emal Wali Khan ki baat sunta hoon jahaan voh log kaha ke aisi baatein se mazhabi tabdeel karne ka matlab ho sakta hai…
 
یو! یہ بات تو سنجیدگی کی حد تک پھنس گئی ہے، وزیراعلیٰ کو اس وقت کا بہت زیادہ دباو نہیں لگ رہا تھا کہ سینیٹر ایمل ولی خان نے اس کی سرحدوں پر بھی چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور کے بارے میں بات کیا ہوسکta ہے؟ یہ تو واضح طور پر معیار کی سنجیدگی میڰ سوجھت ہوئی ہے، اب وزیراعلیٰ کو صرف ان کے مذہبی جذبات کو ہوا دینا اور بھڑकनا تھا اور اب اس پر مزید ٹکراؤ کا امکان ہوتا ہے؟ یو! واضع طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کرنا چاہئیے جو صوبے کی حرمت کا خاتمہ کررہا ہو
 
یہ سب تووں سچ ہے، وزیراعلیٰ ایک جگہ پہنچانے کا حق ہوسکتا ہے، وہ اپنے رہائشیوں کی جانب سے ایسے بیان نہیں کرنا چاہئیے جو اس صورتحال کو تنگ کررہے ہوتے ہیں، یہ سچ ہے کہ وزیراعلیٰ ایک چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور کرنے کا حق ہوسکتا ہے، اس پر معیار کی سنجیدگی کا مطالبہ نہیں ہوسکتا، اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے ایسے بیان نہیڰٹرے جو ہم رہائشیوں کی مذہبی جذبات کو ہوا دیتے ہیں، اس طرح ہی کیے بغیر مزید ٹکراؤ کا امکان نہیں ہوسکتا، واضح طور پر وزیراعلیٰ عوام اور ریاست کے درمیان بہت کم فاصلہ بنائیں اور بدعتمادی ختم کریں। 😐
 
یہی نہیں، وزیر اعلائی کو ہمیشہ سنجیدگی کا تعلق دیا جاتا ہے بلکہ وہ تو ایک اور صورتحال میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، یہ تو پورا دباؤ تھا، سینیٹر کی بات بھی صحیح ہوئی جو کہ کہتے ہیں کہ اس پر مذہبی جذبات کو ہوا دینا ہوتا ہے وہی بات جس سے پہلے وزیر اعلیٰ نے اپنے بیان میں کھل کر کہا، چاہے وہ کہۇ گے یا نہ کہے اور اس پر یہ تو مزید ٹکراؤ ہوتے ہیں۔
 
اللہ کی مدد سے وزیر اعظم کو ان پھंडوں میں سے کسی بھی کے لیے ڈر نہیں، مگر یہ بات حقیقی ہے کہ ان فاصلوں کو کم کرنا ضروری ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان پائے جاتے ہیں، تو ڈر کی بات ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کو انہی فاصلوں کو کم کرنے میں اچھی دلیلیں ضروری ہیں، اس سے ریاست اور عوام کے درمیان یہ سمجھ کے ساتھ رہتا ہو جائے کہ یہ فاصلے کم کرنے سے ہر ایک کو فائدہ ہوسکتا ہے، تو انہیں ضروری ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے بھی ایسا بیان کیا جائے جو عوام اور ریاست دونوں کو یقینی بناسکے کہ یہ فاصلے کم کرنے کے ذریعے ہر ایک کو یہ سچائی ملی ہو کہ وہ ریاست اور عوام دونوں کے لیے اہم ہیں، تو یہ بات بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کو انہی پھंडوں سے پوری طرح باخبر رہنا چاہئے جو عوام اور ریاست دونوں کے لیے مفید ہوسکتی ہے، اور واضع طور پر یہ بات سنجیدگی کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم کو انہی پھंडوں میں سے کسی بھی کے لیے صراط مستقیم پر چلنا چاہئے جو عوام اور ریاست دونوں کی فائدہ ہوسکے۔
 
سینیٹر ایمل ولی خان کی بات پر تو پوری طرح متعاطف ہوں، اگرچہ وہ کہتے ہوئے تھے کہ اس سے مذہبی جذبات کو ہوا دینا اور بھڑکانا ہی رہا، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ اس بیان میں مذہبی حوالے دیتے ہوئے نہیں لگتے ، اور اس طرح مزید ٹکراؤ کی وجہ بن جاتا ہے۔ واضع طور پر یہ بات سنجیدگی کا مطالبہ ہے کہ وزیراعلیٰ عوام اور ریاست کے درمیان بہت کم فاصلہ بنائیں اور بدعتمادی ختم کریں، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی سنجیدگی اس وقت ضروری ہوسکتا ہے جب کسی بھی صورتحال میں چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور یا کسی نئے منصوبے کا اعلان کیا جاتا ہے۔
 
بھارتیوں کو اپنے صوبے میں چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور کا راستہ سنجیدگی سے نہیں بنایا جا سکتا، یہ بھی ہوتا تو ایک ڈسٹرسنگ اسٹیٹ میں تبدیل ہوجاتا 🤯
 
ابھی اس بات کی ٹیلی ویژن پر بھی رپورٹ ہو گئی تھی کہ وزیراعلیٰ نے اپنی سرحدی علاقوں میں چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور کا مطالبہ کیا ہے، لیکن یہ بات اتنی پرانی نہیں تھی کہ وہ آج سونے کے بعد بتائیں، جب تک کہ وہ اپنے معاشیات کی چنگاچنگلی پر توجہ دیں تو اور عوام کو اپنی سرحدوں میں بھی انصاف کا راستہ دکھائیں تو وہ یہ بات کر سکتے ہیں کہ وہ صوبے کی جانب سے کیا ہوا تھا۔
 
بھارتی صوبوں میں وزیر اعظم کے ٹکراؤ کی صورتحال کا ایک نئا واقعہ سامنے آیا ہے اور اس کے لیے ابھی تک کی پوری تاریخ پر بات چیت کرنا ضروری ہوگا۔ ان کچھ اعداد جیسے:

* 2022 میں صوبہ مینپور میں وزیر اعظم کے ٹکراؤ کے بعد ریاست کی سرحدی علاقوں میں پھیلنے والے وارننگز کا 71 فیصد اضافہ دیکھنا پڑا تھا
* جولائی 2023 میں صوبہ مینپور میں وزیر اعظم کے ٹکراؤ کی صورتحال سے ریاست کی معیشت میں 12 فیصد معیار میں کمی دیکھنی پڑی تھی
* وائرل بلاک مینپور سے باہر 20 فیصد ریاستوں نے وزیر اعظم کے ٹکراؤ کے بعد اپنے مواصلات میڈیا کا استعمال کم کرنا شروع کیا تھا
* وزیراعلیٰ کی سرحدی علاقوں پر چیف ایگزیکٹو ٹرن اوور (Chief Executive Turnover) کے امکان کو پہچاننے والے 70 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سنجیدگی کی ایک اہم کامیابی ہوسکتا ہے۔
 
اس بات پر یقین نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کو سنجیدگی کی سے تعلقات بنانا چاہئیے، میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعلیٰ کو ایسے لوگ دیکھنا پڑتے ہیں جن سے سنجیدگی کی بات کرنی ہے، لیکن وہاں تک کہ ان کو بھی اس بات کو سمجھنے میں تنگ آگئی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے، میں سوچتا ہوں کہ سنجیدگی کی بات کرتے Samajhne Walie ko bhi thoda sa ہی jawab dena chahiye, kyonki wo baat samajdaar kisi tarha ki hai.
 
وزیراعلیٰ کی منصب پر چھاپیں بڑھ رہی ہیں؟ یہ بات کچھ نہیں ہوسکتی ہے، سنجیدگی اور تعاون کی بجائے ٹکراؤ کی طرف ہمیشہ توجہ دینا ہی بھولا جاتا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے وعدے سے پہلے، وزیراعلیٰ کا منصب ہے کیوں؟ یہ بات ہی ہے کہ وزیراعلیٰ عوام اور ریاست کے درمیان ایک بھرپور تعلق بنائیں، وہی چیز جو صوبہ خیبر پختونخوا نے کہا ہے۔

اس صورت حال میں کوئی توازن تلاش کرنا چاہئیے، انہیں اپنی بیانوں سے صوبے کی بھرپور ترجیحات پر धیان دینا ہوگا، یہ توازن بنانے میں صرف سنجیدگی اور معیار کے ساتھ بات کرنا ہوگا۔
 
🤔 ماحولیات کو پھانسنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ "مادتا نہیں تو کچھ بھی نہیں"، اور اب وہی بات ہے جو ہوتا رہا، مگر اہل عظمت politicians میں سے یہ بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئیے کہ ہر ایسا ناقد ووٹ جو دوسروں پر زور دیتا ہوا کچھ نہیں ہوتا، یہ سچائی کو دھنچک دینا چاہئیے اور Politics میں بھی سنجیدگی کا استعمال کرنا چاہئیے، مگر اب وہی بات ہے جو ہوتا رہا..
 
واپس
Top