پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے یوم سیاہ کے جلسے پر صوابی میں تقریر کی جس سے انہوں نے بتایا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار بنی ہوئی ہے، یہ بات واضع طور پر ظاہر ہوتی ہے جب انہوں نے کہا کہ آئین میں پہلی بار ترمیم کے بعد بڑی شخصیات کو فائدہ ہوتا ہے، یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ بدترین حالت میں ہے، جبکہ ہماری حکومت میں افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت تھی، اب یہ 40 دن سے بند ہے، وہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، امن اور روزگار کی بات کی جائے گے۔
اسد قیصر نے مزید بتایا کہ یوم سیاہ کا مقصد مکمل طور پر بادشاہت کی طرف بڑھنے والا ہے، اس لیے اسمبلی میں اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کو سنسر کر رہا ہے، وہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے سوچا پیپلز پارٹی میں بھٹو کی سوچ ہے جو اس کی مخالفت کرے گی لیکن وہ اب لاتھ گئے ہیں۔
اسد قیصر نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں حالہ حالے حکومت میں بیٹھ کر قانون تبدیل کر رہی ہے، عمران کی رہائی کوئی مشکل نہیں لیکن انہیں عدالتوں کے پاس اختیارات نہیں ملے گا، یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک میں اب عملا ڈنڈے کی حکومت ہے جہاں کسی سے بھی انصاف کی طرف سے کھڑے ہوں، یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے کھڑے ہوں تو انہیں بھی آپ کے ساتھ ہے۔
اسد قیصر کا یہ بیان پورے ملک کے لئے ایک اہم بات ہے، اگرچہ انہوں نے اس بات کو دھلایا ہے کہ حکومت کون سا ڈھانچہ چلا رہی ہے لیکن یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہی لوگ جو پیسہ کھیلتے ہیں انہیں ڈنڈے کی حکومت سے بھاگنا پڑتا ہے، اس نئی حکومت کے تحت جس میں عمران خان کو ایک وکیل کا معاشرہ بنایا گیا ہے انہیڰی نے بھی اپنی فیکٹریوں اور کاروباری چیلنجز کی جانب بڑھان لینے پر پابند کر دیا ہے، اس لیے وہی لوگ جو سچائی کے حوالے سے انصاف کی طرف سے آئین کی بالادستی کے حوالے سے کھڑے ہوئے تو ان کا ہاتھ پھٹ گیا، اس لیے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد وہ لوگ جسمانی طور پر اور جذباتی طور پر لاتھ گئے،
اسد قیصر نے یوم سیاہ کے جلسے میں جو بات کی ہے وہ ایسے ماحول میں بیان کی جا سکتی ہے جہاں لوگ اپنی آواز ڈالنا چاہتے ہیں، لہذا اس کے بعد نہیں سکتے ہیں اور ایسے کھانپین کی بات کی جا سکتی ہے جو اس کی تعلیمات کے مطابق ہو
اسد قیصر کا یہ بیان واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ یوں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، اور امن اور روزگار کی بات کی جائے گے۔ لیکن ابھی تک اس میں تو بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ حکومت ان کی باتوں کو سنانے پر تیار ہے۔
اسد قیصر کے کہنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی سوچ سے نہیں متعلق ہیں، اور انہوں نے بھٹو جی کی سوچ کو چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ اس پہلے سے جس طرح وہ دیکھتے تھے کہ انہیں بھٹو کی روایات پر عمل کرنا چاہئے۔
اس کے علاوہ اسد قیصر کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ملک میں حکومت اور عدالتوں کی صورت حال کے بارے میں کوئی بھی غلطی نہیں کر رہا، اور انہیں اس بات پر یقین ہوگا کہ وہ اپنے جیسے ساتھی بھی ہیں جو قانون اور آئین کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں۔
اسد قیصر کو یہ بات متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کچھ کیسے بتا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار بنی ہوئی ہے، لیکن یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں بتایا ہے! آپ جانتے ہیں کہ اسکول میں بھی طالب علم کو پھانسی دینے سے قبل وہ بات بتا رہے تھے، اب یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یوم سیاہ کا مقصد ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے فائدہ اور سیاسی تاکید کو بیان کرنا چاہا ہے، اس کے لیے انہوں نے کئی دفعہ بدلی ہوئی بات بتائی ہے!
اسد قیصر کو میں اچھا سمجھتا ہوں لیکن اس کی سیاسی توجہ یہ ہو رہی ہے کہ وہ اپنے ہی پارٹی سے لڑ پڑ رہا ہے، شاندار طور پر اس نے ہر دوسرے کی توقع بھی نہیں کی کہ پیپلز پارٹی میں ایسے رہنما بن رہے ہیں جو ان سے لڑتے ہیں، اس نے شاہانہ حکومت کی طرف بڑھنے کی کوشش کروائی ہے جس سے وہ اپنی حلقوں سے محروم رہے گا۔
اسد قیصر نے یوم سیاہ کے جلسے میں پورا یہ کہنا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے انہوں نے اِس پر توجہ دیتے ہوئے فیکٹری میں کھیل سے پوری کچرے کی جاتے ہیں، جبکہ اس گروپ میں بھی شائقین موجود نہیں، ان کا مقصد بھی اِسٹیبلشمنٹ کی طرف بڑھنا ہے تو یہ ایسی بات نہیں جیسے میرے چچا نے فیکٹری میں شائقین کے بغیر ساتھ واپس آئے ہیں، اِس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کے پاس پیپلز پارٹی جیسا مقصد نہیں تھا جو وہ اس وقت واپس لاتے ہیں۔
اسد قیصر کی یہ بات میں کوئی چلّے نہیں آتا کہ آئین میں ترمیم کرنے پر پیروکار حکومت بننا بھی ایک اچھا پہلو ہے؟ اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 40 دن سے بند ہونے والی افغانستان سے دو طرفہ تجارت کو نہ بنانے کی بات اسد قیصر کی اپنی جانب سے تو یوں ہی کہتی ہے، لہٰذا آپکا یہ سچا پتہ چل گیا کہ انہیں دھمکاوں اور سانس کی گنجائش نہیں ہے۔
اسد قیصر کی تازہ تحریکات میں سے ایک یہ کہ وہ پوری دنیا کے سامنے خود کو بادشاہِ الارض کھیل رہے ہیں، اور اس لیے انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کی تقریر کو سنسر کر دیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنی طرف بڑھنے کی اور اپنی جگہ کی لٹفیت کی جدوجہد میں صرف ایک طرف توجہ دی رہے ہیں۔
اسد قیصر کی یہ تقریر پر میرا خیال یہ ہے کہ وہ تھوڑی بھی بات چیت نہیں کر رہے، انہوں نے صرف تنقید کی طرف سے ہمیشہ فائدہ مند ہونے کا انعام لے لیا ہے، یہ بات واضع طور پر ظاہر ہوتی ہے جب انہوں نے بتایا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پیروکار بنی ہوئی ہے، مگر انہوں نے یہ بات بھی واضع طور پر نہیں کی کہ انہوں نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا؟
اسد قیصر کی یہ تقریر سے میرا خیال ہے کہ وہ حکومت میں اپنے اہل خانہ اور ان کے حامیوں کو صرف ایک بات سے محفوظ سمجھتے ہیں جو ہے کہ انہیں آئین کی بالادستی کا خیال نہیں کرنا چاہئے، مگر وہ یہ بھی کامیاب رہتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں میں دھڑکن لگا دی جو ان کے ساتھ ہی رہتا ہے، اس لیے وہ اس کے لیے ایک حقیقی نئی تحریک کو محض منہ سٹر تھوڑی دیر تک سمجھا کر بدلتی ہیں۔
اسد قیصر کی باتوں پر گौर کرنا ضروری نہیں لیکن اس بات کو یقین کے ساتھ لےنا چاہئے کہ وہ انصاف پارٹی کی رہنما نئی توجہ دی رہی ہے جو آجکل بھی ایسے مقاصد کے لیے لڑتی ہے جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کی باتوں کو سمجھنے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ یہ وہیں ہے جہاں بھٹو نے اپنی حکومت کا آغاز کیا تھا، اور وہیں ہے جہاں عمران خان نے اپنی پارٹی کی قیادت کی تھی، حالانکہ اس میں بھی ایسی باتوں کو لے کر جاتا ہے جو کہ عوام پر مجبور کر دیتی ہے