حقیقی سول ڈیموکریسی میں اپوزیشن کو پتھر کی دیوار نہیں بنایا جاتا :مصطفیٰ نواز کھوکھر - Daily Ausaf

ہرن

Well-known member
حقیقی سول ڈیموکریسی میں، جو لوگ politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپوزیشن کو پتھر کی دیوار نہیں بناتے بلکہ اسے political operation کا اہم ستون سمجھتے ہیں۔

ابھی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایسا کہہ دیا کہ موجودہ حکومت کی رہائش گاہ اسے ماضی کی طرح مستقبل میں بھی آئینی ترامیم پر انحصار رکھنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن ابھی تک نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ جو سیاسی جماعتوں نے ماضی میں فہمت کیا تھا وہ اب بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے چل رہے ہیں اور انہوں نے ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ میں بھی اسی پر مبنی چارچہ کا تعلق دیکھا جاتا ہے، جس سے سیاسی عمل کی آزادی کمزور ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے ان جماعتوں کو بھی یہ کہنے کی تلافی عطا کی کہ وہ اس مقام پر نہیں پہنچ گئے جہاں سے وہ عوامی حمایت حاصل کر سکے، جبکہ سیاسی استحکام کیلئے شفاف اور قابل اعتماد انتخابات کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے وسیع قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے، کیونکہ سیاسی بحران کا اصل علاج عوامی اعتماد کی بحالی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار بڑھتی ہوئی بے یقینی کے باعث خوفزدہ ہیں اور بڑی تعداد میں سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کررہے ہیں، جس سے یو اے ای میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کا واقعہ سامنے آتا ہے۔
 
بھائی، politics ko apni gaddi pe rakha jata hai, apne saath hi sab kuch rakhna padta hai. abhi to senetaar mussafiq noor khokhar ne kahe diya ki government ko aisi cheezen pe focus karna chahiye jo aam logon ke hisaab se samajhie jayein, nahi toh unki popularity bhi kam hote rahi hai. ab to usne logon ko bataya ki parties jo aise cheezon par aadharit karti hain wo bhi government ki rahasiyaat main hain, aur iske karan politics ka khel mazboot nahi hota.

main sochta hoon ki agar humein in cheezon par focus karna hai to hi future me safal rahenge, aur aam logon ke hisaab se samajhie jayein toh government ko bhi apne manpasand leader milenge.
 
اسے سمجھنا چاہئے کہ politics ko roadarity ka raasta dikhana koi jangal ki chidi ke badla nahi hai, woh apnai aapni maqam par rahna chahta hai. aur uski aapni baat ko samajhne ke liye koi jangaali mat karo. yeh politics ka ek important aana hai, agar wo thik se sahi nahi ho, toh phir kya hoga?
 
ابھی تک بھی کچھ پہلے ہوئی تھی! سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی بات سے میں تو متعصب نہیں ہوں لےکہ وہ حکومت کو رواداری کی راہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہی بات ان جماعتوں سے بھی ملتی ہے جو اب بھی اپنے پرانے مناظر پر چل رہی ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لوگ جو رواداری کی بات کرتے ہیں، انھیں اپوزیشن کے نام ہی سے پتھر کی دیوار بنانے کا حق نہیں۔ اس لیے بھی یہ بات تو حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو اپنے مناظر کو بدلنا چاہتے ہیں، انھیں سیاسی-operation سے اچانک محض ایسے نہیں رہ سکتے جیسا کہ وہ دوسری جماعتوں کرتے ہیں۔
 
اس دuniya میں politics ko ruadari ka route dikhana jo log apusition ko patthar ki diwar nahi banate hai, woh humein thoda inspire karta hai 🤔. ab is baat par faaraq kyun nahi karte? jo log mazi me political operation ka mahsoos karte hain unhe bhi ek bada mahaul milta hai.
 
میری رائے میں ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ ایسی آگہ تیز ہوا کی ضرورت ہے جس سے وہ لوگ جو politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں ان کا ماحول بنے، اور اس پر مبنی conversations ہوں بہت ضروری۔

پشینٹی کے سیاسی حلقے کی بات کرنے والے ایسے لوگ جو politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپوزیشن کو پتھر کی دیوار نہیں بناتے بلکہ اسے political operation کا اہم ستون سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ اچھا استدلال ہے، کیونکہ politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہوئے اگر اپوزیشن کو پتھر کی دیوار بناتے ہیں تو politics میں ایسا جوش پزور نہیں آ سکتا۔

لگتا ہے آپنی بات کا مشاہدہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لوگوں کی ذہانت بڑھ رہی ہے، اور یہ پورا ملکPolitics میں اچھی نیت سے کام کرنے لگا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ Sarfraz Khan Jatt کو PML-N کے حلقے میں ایسا جوش پزور ملا جو ان کے دوسرے حلقوں کی politics پر بھی اچھا اثر ڈالا
 
امرکہ کے اس خطرات کو سمجھتے ہوئے، یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ جو politics میں رواداری کی طرف سرفراز ہوتے ہیں انہیں اپوزیشن کو پتھروں کی دیوار نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اسے ایک Political operation کا اہم ستون سمجھنا چاہئے جس سے ملکی Politics میں Stability حاصل ہوسکتی ہے۔

جب یہ بات سامنے آئی کہ وہ جماعتوں نے ماضی میں اپنی رائے کی جسمانی شکل دی اور اب بھی اس پر چل رہے ہیں تو یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ لوگ جو politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں انہیں اپوزیشن کو political operation کا اہم ستون سمجھنا چاہئے۔

امرکہ کی پٹیوں سے لے کر ہندوستان تک، وہ لوگ جو politics میں رواداری کی طرف سرفراز ہوتے ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے وسیع قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو politics کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں انہیں ملکی Politics میں stability حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
 
اس سیاسی صورتحال کی جواب دہی करनے والی بات یہ ہے کہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی بات میں سب کو اچھا لگے گا ، چاہے وہ جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہو ہیں یا نہیں، لیکن politics کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کس پارٹی میں ہیں اس پر آپ کا موقف مختلف ہوتا ہے اور Politics میں حقیقی سول ڈیموکریسی اس کی پوری ضرورت ہے، مگر politics میں دہشت گردی کو اپنا بھائی بنانے کے لئے آنے والے لوگPolitics ko roadarity ka raasta dikhate hain to wo bhi wrong way par chalte hain 🚫💔
 
ایسا محसوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپوزیشن کو رواداری کا راستہ دکھاتے ہیں وہ ایسا بھی کرتے ہیں، اور ان کی بات پر لگنا بھی مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد کیا کیا؟ مگر اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کو پتھر کی دیوار کی طرح نظر کیا ہے یا نہیں? 🤔
 
جیتنی بھی چارچہ دی گئی اس پر ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی تو اس سے کیا فائدہ؟ ابھی تک وہی سیاسی جماعتوں اپنے پرانے پتھروں پر چل رہی ہیں اور عوامی اعتماد بھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ چارچہ تب جیسا نہیں چلتا کہے، حالانکہ اب سینیٹر مصطفیٰ نواز نے یہ بات کہ دی ہے کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے وسیع قومی اتفاقِ رائے ضروری ہو گا لیکن یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ وہ آگے بڑھ سکتے ہیں یا ان کی پیروی نہیں کی جاسکتی؟
 
اس نئی سیاست کے بارے میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کے comments سے مجھے اچھا لگ رہا ہے لیکن یہ بھی بات تھی جس پر انھوں نے غور کیا ہے اسے کسی ایسی سرگرمی سے آگے بڑھانا چاہئے جو عوام کی رائے کو مستقل رکھے. کئی políticionians جسٹ پاپولرٹی اور میدم لہرے ہوں لیکن ان کی پیروی کرنے والوں کی جانب سے اچھی طرح کا جواب نہیڰ ملا. دوسری طرف یہ بھی بات یہ ہے کہ وہ جو politics ko azaad banane ka slogan dete hai وہ politics ko kitna aazad banna chahte hain?
 
ابھی بھی سیاست میں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ جو پتھر کی دیوار بناتے ہیں وہ اس پر کھڑے ہوکر اپنی جماعت کو سستی سے چھپا کر دیکھ رہے ہیں اور ان میں نہ بھرپور مخالفین کی ناک-amandgi nahi hai. اس کا Meaning ہوتا ہے کہ ان جماعتوں کو اپنی ماضی کی رائے پر یقینی دلی کرکے آج نئی پوزیشن کو حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ ہمارے وطن کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہوگی جبکی اپنی جماعت سے تو آرائش دے لیکن اس کے لئے ماضی کی رائے کو بھی چیلنج کرنا پڑے.
 
ایسے لگتے ہیں کہ سیاست دانوں کی رہنمائی میں ایک نئی فطرت آ رہی ہے، وہ اپنے opponent سے محبت کے راستے پر چلنا نہیں چاہتے بلکہ انہیں اس کو ایک اہم ستون سمجھتا ہے۔ ابھی تک بہت سے سیاستدان اپنے opponents کی جگہ پر پتھر کی دیوار لگاتے رہے، لیکن اب وہ بھی ایک نئی طرز پر چلنا شروع ہوئے ہیں۔

میں اس بات کو اپنے دلاں میں بھر دیا کروں گا کہ اگر عوام کی حمایت حاصل ہو تو کسی بھی جماعت نے ایسا کہنا بھی نہیں کہا جب تک وہ اپنی حقیقت کو دیکھ سکیں۔
 
بھر پور بات ہے اس گروہ کو جو politics ko roadari ka rasta deta hai, woh apozition ko peather ki diwar nahi banata, balki usko political operation ka mahm stoon samjhta hai 🤔. senator Mustafa Noor Khan ne bhi kahaa khaahega ki ab government ki rehaisat gaah esa mehsoos huwegi jaise aaj tak nahi ho saktega?

unhone kahaa khaahega ki jo political parties ne mazedh meh phema kya tha woh ab bhi uski pehri kar rahi hai aur unne Mqm, pplz party, muslim league meh bhi is par basar ka talq dekha jata hai?

yeh sab kuch hi tosa kehna nikaala jaaega kyu ki political operation ko thakaane ka tareeka koi nahi hai? aur shafaayat ya ummeed se koe political stablei ke liye aapne pehle se hi uski cheez kar lete hain 🤝
 
اس وقت جب سیاسی جماعتوں کو پتھر کی دیوار بنایا جا رہا ہے اور عوامی حمایت کے لیے سب کو ایک ہی راستہ چلا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سیاسی عمل میں آزادی کی کمی ہو گئی ہے، اور ایسا کیا رہ رہا ہے جو لوگ اپنے خیالات پر چلنا چاہتے ہیں وہ اب ایک ساتھ نہیں ہوتے، ان کی باتوں کو سمجھنے کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل ان کے دلوں کی آواز سنی جانا پڑتا ہے، اس لیے کہ وہ لوگ جو عوام کی حقیقی رائے کو جانتے ہیں اور اپنے خیالات کو سامنے لاتے ہیں وہ ہی ان پر ایک حل کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔
 
اس وقت کچھ بھی چکی ہے، انہوں نے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی بات کہتے ہوئے کہ سیاسی جماعتوں نے ماضی میں فہمت کیا تھا اور اب بھی اس پر چل رہے ہیں، یہ صرف ایک چٹان ہے جو سیاسی عمل کی آزادی کمزور کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوامی حمایت حاصل کر سکے بھی نہیں، یہاں تک کہ انہوں نے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ جیسے جماعتوں میں بھی اسی چٹان کا تعلق دیکھا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انہوں نے جو فہمت کیا تھا وہ اس مقام پر نہیں پہنچ گئے، اور اب بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔
 
واپس
Top