1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دنیا بھر میں غیرمعمولی انقلابی جوش و خروش کا دور دورہ تھا۔ نوآبادیاتی نظام کے زوال، سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور نوجوانوں کی تحریکوں نے مل کر اس عالمی منظر نامے کو تبدیل کر دیا جس میں پرانی طاقتیں چیلنج ہوئیں اور نئی فکری و سیاسی جہتوں ابھریں۔ اس دور میں طلباء کے احتجاجی مظاہرے، شہنشاہیت کے خلاف آگاہی اور معاشی و سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے عوامی تحاریک نے حدیں مٹائیں تھین، جس نے شہر ڈائریکٹری ، یونیورسٹی اور قومی پارلیمنٹ میں ایسی تبدیلیاں لائیں کہ وہ ابھی ہی اپنے وجود کو سنہرا سچاتے تھے۔
افریقہ میں بھی اس جوش و خروش نے ابھرایا، جس کی سب سے بڑی علامت کانگو ہے جو اس وقت ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آ رہا تھا۔ کانگو میں پیٹریس لوممبا کا قتل دوسرے نوجوان اور صحرائی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز Leadership کی قیادت میں اپنی آزادی حاصل کرنا تھا۔ وہ نئی سیاسی ساجش کے لئے ایک معزز شہری اور بیدار قائد کی حیثیت رکھتے تھے، جو اس وقت دنیا بھر میں لوگوں کی نظر کا مرکز تھے۔
سچائی کے جھنجھٹوں سے نکل کر اس عالمی منظر نامہ نے اپنا چہرہ بدل دیا۔ یہ ایک عالمی تحریک بن گئی اور اس نے دنیا کی مختلف اقسام کے لوگوں کو ملا کر ایک جھنپھتو ہوا۔ یہ جوش و خروش نوجوانوں میں سب سے زیادہ رہا، جو پوری دنیا میں اپنے ساتھ لے گئے اور اس عالمی تحریک کو اپنے لیے ایک ماحول پیدا کیا۔
یہ افریقی قومی قیادت اور ان کی نتیجاتی تحریکوں نے دنیا کی مختلف اقسام کے لوگوں کو ملا کر ایک جھنپھتو ہوا، جس نے یہ سوچ کی کہ سوشلسٹ اور لیبرل حلقے ایک دوسرے سے مل کر اس عالمی منظر نامہ کو بڑھا رہے تھے۔
اس عالمی تحریک نے فرانس میں طالب علم اور مزدوروں پر اپنا اثر چھا لیا، جس کے نتیجے میں 1968 کی ایسی تحریک ہوئی جس کا پہلا اٹھن کا دھواں اس عالمی منظر نامے سے شروع ہوتا تھا۔ یہ فرانس کی آگ میں لگ کر دنیا کو بھرنا شروع کیا، جس نے ایک نیا عالمی منظر نامہ پیدا کیا اور اس پر مغربی طاقتوں کی موجودگی سے ناکام ہونے کا امکان پیدا ہوا۔
اس عالمی تحریک نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دنیا بھر میں نوجوانوں کے لئے ایک ایسی شان و عظمت پیدا کی، جس سے انھیں ایک جمود سے ہٹ کر ایک پہلو کی طرف رخ کرنے اور اپنی نئی سوچ کو اپنا کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس عالمی منظر نامہ نے نوجوانوں کو اپنی نئی سوچ کا اظہار کرنے، اپنے نئے اور مطلوبہ طرز زندگی کو اپنانے اور دوسروں کی تحریکیں سے جود لینے کی اجازت دی۔
اس عالمی منظر نامہ نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایک نئی سوچ، ایک نئی فکری جہت اور ایک نئی سیاسی جہت سے آگاہ کر دیا، جو انہیں اپنی زندگی کو بھرپور بنانے کی اجازت دیتی تھی۔
افریقہ میں بھی اس جوش و خروش نے ابھرایا، جس کی سب سے بڑی علامت کانگو ہے جو اس وقت ایک آزاد ملک کے طور پر سامنے آ رہا تھا۔ کانگو میں پیٹریس لوممبا کا قتل دوسرے نوجوان اور صحرائی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز Leadership کی قیادت میں اپنی آزادی حاصل کرنا تھا۔ وہ نئی سیاسی ساجش کے لئے ایک معزز شہری اور بیدار قائد کی حیثیت رکھتے تھے، جو اس وقت دنیا بھر میں لوگوں کی نظر کا مرکز تھے۔
سچائی کے جھنجھٹوں سے نکل کر اس عالمی منظر نامہ نے اپنا چہرہ بدل دیا۔ یہ ایک عالمی تحریک بن گئی اور اس نے دنیا کی مختلف اقسام کے لوگوں کو ملا کر ایک جھنپھتو ہوا۔ یہ جوش و خروش نوجوانوں میں سب سے زیادہ رہا، جو پوری دنیا میں اپنے ساتھ لے گئے اور اس عالمی تحریک کو اپنے لیے ایک ماحول پیدا کیا۔
یہ افریقی قومی قیادت اور ان کی نتیجاتی تحریکوں نے دنیا کی مختلف اقسام کے لوگوں کو ملا کر ایک جھنپھتو ہوا، جس نے یہ سوچ کی کہ سوشلسٹ اور لیبرل حلقے ایک دوسرے سے مل کر اس عالمی منظر نامہ کو بڑھا رہے تھے۔
اس عالمی تحریک نے فرانس میں طالب علم اور مزدوروں پر اپنا اثر چھا لیا، جس کے نتیجے میں 1968 کی ایسی تحریک ہوئی جس کا پہلا اٹھن کا دھواں اس عالمی منظر نامے سے شروع ہوتا تھا۔ یہ فرانس کی آگ میں لگ کر دنیا کو بھرنا شروع کیا، جس نے ایک نیا عالمی منظر نامہ پیدا کیا اور اس پر مغربی طاقتوں کی موجودگی سے ناکام ہونے کا امکان پیدا ہوا۔
اس عالمی تحریک نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دنیا بھر میں نوجوانوں کے لئے ایک ایسی شان و عظمت پیدا کی، جس سے انھیں ایک جمود سے ہٹ کر ایک پہلو کی طرف رخ کرنے اور اپنی نئی سوچ کو اپنا کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس عالمی منظر نامہ نے نوجوانوں کو اپنی نئی سوچ کا اظہار کرنے، اپنے نئے اور مطلوبہ طرز زندگی کو اپنانے اور دوسروں کی تحریکیں سے جود لینے کی اجازت دی۔
اس عالمی منظر نامہ نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں دنیا بھر کے نوجوانوں کو ایک نئی سوچ، ایک نئی فکری جہت اور ایک نئی سیاسی جہت سے آگاہ کر دیا، جو انہیں اپنی زندگی کو بھرپور بنانے کی اجازت دیتی تھی۔