بڑا مزہ، وزیرِ توانائی نے عوام کے لیے ایک بھاری باج وچار دی ہے اور اب یہ فیکٹریاں پچھیں جائیں گے تو وہ کیسے چلنگیں؟ مگر یہ تو وزیرِ توانائی کا ایک نئا کیریئر ہو رہا ہے، ان کی فیکٹریاں پچھیں جائیں گے تو وہ کمپنیوں کو کیا چھوڑ دیں گے؟ اور عوام کے لیے یہ بھی ایک نئا موقع ہو رہا ہے، انہیں 40 لاکھ روپے کی مصنوعات میں سے اپنی پناہ جگہ مل سکتی ہے؟ .
ایسا لگتا ہے کہ وزیرِ توانائی نے اپنی جگہ کھو دی ہے، یہ دیکھنا بے ساتھی ہے کہ عوام کو 40 لاکھ روپے کا خرچ کرنا پڈ آٹو میٹرز میں فیکٹریاں چلائی جاسکیں گے، یہ شہریوں کی زندگی کے لیے ایک بڑی مصیبت ہے
انہوں نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے مشورہ منگایا تھا کہ انہیں اپنے شعبے میں فریکوئنسی اور فیسنگ پچھیں اور شہریوں سے ان کے وٹنگز حاصل کریں، لیکن وزیرِ توانائی نے اسے Ignore کر دیا
اب 40 لاکھ روپے کی مصنوعات عوام کو پہنچانے کی کوشش کیا جائ رہی ہے، یہ شہریوں کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے اور انہیں اپنی زندگی کو بھرپور بنانے کی آسانی نہیں مل سکتی
یہ واضح طور پر ایک ناکارکنہ فیصلہ ہے جس سے عوام پر بھاری بوجھ پڑ رہی ہے اور ان کے حقوق کو ختم کررہا ہے
وزیرِ توانائی کی طرف سے دی گئی اس فیصلے نے شہریوں کے لیے ایک بڑا مالی بوجھ لگایا ہے اور ان کی زندگی میں اضافی مصیبت کا باعث بن رہا ہے
ماہرین نے اس فیصلے سے پہلے بھی بتایا تھا کہ کمپنیوں کو اپنے شعبے میں فریکوئنسی اور فیسنگ پچھیں اور ان کے وٹنگز حاصل کریں، لیکن وزیرِ توانائی نے اس مشورے پر غور نہیں کیا
اس طرح عوام کو 40 لاکھ روپے کی مصنوعات پہنچانا ناقابلِ قبول ہے اور یہ واضح طور پر ایک ناکارکنہ فیصلہ ہے جو عوام کو بڑا مالی بوجھ پر ڈال رہا ہے
جس کی بات ہو رہی ہے پیداوار کی مصنوعات عام شہریوں تک پہنچانے میں 40 لاکھ روپے کی بھرپور خرچ کا معاملہ ہے تو مجھے یہ بات تھی کہ اس سے عوام پر زیادہ بوجھ پڑنا چاہیے؟
اس میں ایک مسئلہ ہے کہ پیداوار کی مصنوعات جو بنائی جاتی ہیں وہ صرف فیکٹریوں کے اندر ہی رہتی ہیں، لیکن عوام کو ان کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے تو یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا اس سے شہریوں کو فائدہ ہوسکتا ہے؟
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ تو ایک بات ہے، لیکن مواد کے نہیں پہنچنے سے عوام کو مزید مصیبت ملتی ہے۔
سارے شعبے میں فریکوئنسی اور فیسنگ کی بات کرتی ہیں تو ان کا مشورہ ہوتا ہے کہ کمپنیوں کو اپنا وٹنگز حاصل کریں، لیکن 40 لاکھ روپے کی مصنوعات جس پر یہ فخر ہے تو عوام کو پہنچانا ناقابلِ قبول ہیں۔
اس فیصلے سے عوام پر نچنے کی بات ایسے لگتی ہے جیسے وہ گھروں کی بیڑی بن کر کھیل رہے ہیں۔ 40 لاکھ روپے کی مصنوعات کو عوام تک پہنچانا صرف ایک تصور ہی نہیں بلکہ ایک جگہ جہاں کھیل رہے ہیں۔ یہ فائصلہ عوام کے مہینوں میں سے ایک بن گیا ہے جو ان کے پتے جہاں نہیں چل پائیں گے۔
یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ وزیرِ توانائی سے پتہ چل رہا ہے کہ اسے اچھا سے سمجھنا نہیں آتا ہے، 40 لاکھ روپے کی مصنوعات ان لوگوں کو پہنچانا جسے انہوں نے وٹ کیا ہوتا ہے، یہ تو ایک بڑی گalt ہے۔
اس سے صرف ایک بات واضح ہوتی ہے کہ انھیں اپنے فیصلوں کو دوبارہ سوچنا چاہیے اور عوام کی ضروریات کو دیکھنا چاہیے۔ شہریوڰ پر بھاری بوجھ ڈال کر انھیں وٹ کیا جانا تو انھیں ہلچل میں ڈال دیا جاتا ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
انھوں نے ایک بڑا معاملہ بنایا ہے جو عوام پر چمکتا ہوا ہے اور اس سے انھیں معاف نہیں کیا جاسکتا، وہ لوگ جو اپنی زندگی کو بھرپور بنانے کی کوشش کر رہے تھے، انھیں یہ مصنوعات ملنی چاہیے اور ان سے انھوں نے وٹ کیا ہوتا ہے، لیکن اب انھیں بھاری بوجھ پر ڈال دیا گیا ہے۔
ye faisla kya hoga? jo logon ko 40 lakh rupee ka bura bura samna karna pad raha hai to isse unki zindagi mein kitna bada nuksan aayega? kaise peed auto meters ki factoryaon ko 40 lakh rupee diya jaye? yeh kisi tarha ka faisla nahi hai, yah ek galat faisla hai jo kuch aur naya socha ja sakta tha...
اس فیصلے سے عوام کو تو بھاری بوجھ ہی نہیں پڑا، بلکہ ان کے زندگی کو مکمل طور پر ٹوٹ دیا گیا ہے . 40 لاکھ روپے کا خرچ کرنا ایسا تھا جیسا کہ بھی نہیں، کیا کوئی سوچتے تھے کہ عوام کی پینش پر فیکٹریاں رکھ دی جائیں؟ یہ تو دوسرا معاملہ ہے جس سے شہریوں کو بھاری بوجھ پڑتا ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوئا اور Material bhi public se door ho ja raha hai... کیا یہ تو سچم؟
سڑکوں پر گاڑیوں کی نئی لائی پھیرنے سے زیادہ ترہیں کو کچلنا ایسی ہی چیلنجنگ ہے ، می تھوڈی سی فیکٹری بھی ٹوٹ میٹر پر رکھ دی جائیگی تو انہیں کی وہ مصنوعات جو عوام کو پہنچائیں گی، اس طرح سے ایک گاڑی کی لائی پھیرنے کے مقابلے میں بہت اچھا ہی ماحول بنایا جائے گا
اس فیصلو نے مجھے اتنا دکھا دیا ہے کہ میں اپنے فavsٹار تینا کپلر سے بہت مشتگ ہو گیا ہوں... انہیں ایسی باتوں میں شामل ہونا چاہئے جو عوام کی زندگی کو آسان بنائیں، نہیں کہ وہ لوگ ایسے حالات میں رہنے پائے جین۔
جیسا کہ ماہرین نے مشورہ دیا تھا کہ کمپنیوں کو اپنا شعبہ دیکھیں اور عوام سے وٹنگز حاصل کریں، لیکن انہوں نے یہ سب توہن کیا ہے... اور اب عوام پر 40 لاکھ روپے کی مصنوعات پہنچانے کو کیسے؟ یہ پیڈ آٹو میٹرز کے لیے ٹوٹ میٹر بن گیا ہے...
جسے وہ لوگ پیٹروں کی جیسا شاندار فیصلے کر رہے ہیں انہیں 10 لاکھ روپے پر ایک کھانے کا قیمتی پین نہ ہونے دے، وہ لوگ شاندار ہیں... مگر یہ کئے 40 لاکھ روپے کی مصنوعات کو عوام کو پہنچانا تو بہت مشکل ہے... اور اب میٹریل شہروں سے دور کر گئی ہے...
اس فیصلے سے انساف نہیں ہوگا، صرف ایک بڑا زور دبای گا عوام پر۔ کیا یہ تو اس وقت کی واقفیت ہے؟ بیجلی کو مینج کرنے کی صلاحیت سے بھی پوری دنیا آگ لگائی جائے گئی ہے۔