ظہران ممدانی کے خلاف مہم22 ملین ڈالر ضائع کرنیوالے ارب پتیوں کے نام سامنے آ گئے

یوٹیوبر

Well-known member
امریکا کے نو منتخب مئیر ظہران ممدانی نے 26 ارب پتیوں کی 22 ملین ڈالر کی مہم کو شکست دی جس سے نیویارک میں سوشلسٹ سیاست کو نیا عجائب محسوس ہوا ۔ ظہران ممدانی کے خلاف چلانے کیلئے اپنے ڈالروں کو آگ میں جھونکنے والے ارب پتیوں کے نام سامنے آ گئے ہیں ، جو اس مہم کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

امریکا کے 26 بڑے ارب پتیوں نے تقریباً 22 ملین ڈالر مختلف انتخابی مہموں، سپر پی ای اے سیز (Super PACs) اور آزادانہ اشتہاری مہمات میں جھونک دیا تاکہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے ممدانی کی کامیابی روکی جا سکے ۔ مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا، عوامی سطح پر منظم مہم اور چھوٹے عطیات پر مبنی سیاسی جدوجہد نے بڑی دولت کے اثر و رسوخ کو مات دے دیا ۔

ان ارب پتیوں میں نمایاں نام مائیکل بلوم برگ، بل ایک مین، جو گیبیا، لاوڈر فیملی کے اراکین، اسٹیو وِن اور ڈینیئل لوب شامل تھے۔ ان تمام لوگوں نے “Fix the City”، “Put NYC First”، “Defend NYC”، اور “Anyone But Mamdani” جیسے گروپوں کے مالی پشت پناہ تھے ۔ بلوم برگ نے تو پرائمری الیکشن کے بعد بھی لاکھوں ڈالر مزید فراہم کیے، جس سے یہ مہم نیویارک کی سیاسی تاریخ کی سب سے مہنگی میئرل دوڑوں میں شامل ہو گئی۔

میگزین Fortune اور Mint نے مجموعی تخمینے کی تصدیق کی جبکہ Business Insider نے ارب پتی عطیہ دہندگان کے نام اور رقم کی تفصیلات شائع کیں، جن سے واضح ہوا کہ انتخابی مہم کے اختتامی ایام میں پیسہ کس شدت سے ممدانی مخالف بیانیے کے گرد مجتمع ہوا ۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ Forbes کے مطابق دو ارب پتی ، لز سائمنز اور گیٹ ہب (GitHub) کے شریک بانی پریسٹن ورنر ، اس بڑے طبقے سے الگ نکلے اور انہوں نے ممدانی کی حمایت کی۔ ان کی حمایت نے امیر طبقے کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو واضح کر دیا ۔

انتخابی مہم کے آخری ہفتوں میں ارب پتیوں کے اشتہارات، بیانات، اور پیسے کی برسات بھی عوامی جذبات کو نہ بدل سکی۔ نیویارک کے عوام پہلے ہی عدم مساوات، مہنگے مکانات، اور پبلک سروسز کے بحران سے تنگ تھے۔

میگزین Time نے انتخابات کے بعد تجزیہ کیا کہ ممدانی نے ’’ایک پورے ارب پتی لشکر‘‘ کو شکست دی، ان کی گراس روٹس تنظیم اور چھوٹے عطیہ دہندگان پر مبنی تحریک زیادہ طاقتور ثابت ہوئی۔

ریسرچ گروپ OpenSecrets کے اعداد و شمار سے پہلے ہی ظاہر ہو چکا تھا کہ ممدانی مالی طور پر بھی مقابلے میں کمزور نہیں، جس سے ارب پتیوں کا ’’آخری لمحے کا ہتھیار‘‘ غیر مؤثر ہو گیا۔

ممدانی کی کامیابی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ جیسے آزاد خیال شہر میں ارب پتی طبقے کا اثر و رسوخ اپنی حد کو پہنچ چکا ہے؟ میگزین Fortune کے مطابق وال اسٹریٹ کے کئی بڑے سرمایہ کار اب ممدانی کے ساتھ مفاہمنہ انداز میں پیش آنے کا اشارہ دے رہے ہیں، گویا 22 ملین ڈالر کی ناکامی کے بعد ایک ’’عملی مفاہمت‘‘ کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
 
اس مہم سے پتا چلا کہ نئے لڑائی کی راہ میں ارب پتی، ان کی منی بکنگ مینسٹر شپوں اور ان کے فنانڈنگ سے بھی حقیقی رाजनیت کا جال بننے کی صلاحیت ہے؟
 
یہ ٹوٹا مہشوس بھارے پیسے سے گزر چکا ہے، ان ارب پتیوں نے ایک سچي جھول بنائی ہے کہ کیا پیسے سےPolitics کی جگہ ہوتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ سب کو یاد ہو گا کہ منہ توڑتے ہوئے پیسے سے بھی کچھ نہیں بن سکتا، عوام کی آزادی پر یہ غلط فہمی تو ہمیں اتنا بھی خطرہ ہے۔
 
امریکا میں ارب پتی طبقے کی شدت سے تعاون، جس نے مئیر ممدانی کو شکست دی، ایک بڑی بات ہے، لیکن اس کے پیچھے یہ Question ہے کہ اس طرح کی وضاحت کیا جائے گا؟ 22 ملین ڈالر کی ناکامی کے بعد ارب پتیوں کو اپنی کارکردگی پرReflection کرنا چاہیے۔ میگنificent ویزڈ ہو سکتے ہیں، لیکن مہم کے اختتامی ایام میں پیسہ کیسے مجتمع کیا؟

امریکا میں ارب پتی طبقے کی طاقت کے بارے میں سوشلسٹ نظریات کے حوالے سے کوئی بات نہیں، لیکن یہ بات توہم ہے کہ ان کی طاقت انسانیت کو نقصان پہنچائی گئی۔

مذاکرات کے ذریعے ممدانی کو واپس بھگتنا، ایک معقول حل نہیں ہوگا۔ مگر کیا ان ارب پتیوں کے درمیان ایک ’’ساکھ‘‘ بنائی جا سکتی ہے؟
 
ممنوع! 😐 یہ واضح تھا کہ ارب پتی طبقے کی وکالت سے نکلنے والی ایسی کارروائی ان کے عہدے سے لے کر باہر کے لیے بھی ناکام ہو گی جس سے میڈیا نے اس چیلنج کو نظر انداز کیا تھا۔ نئے دور کی سیاسی جدوجہد میں سچائی اور وکالت کا ایک نئا دور شروع ہوا ہے جو مملکت کو ارب پتی طبقے سے لڑنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
 
جی تو یہ بات غم Gripant hai ki نیویارک میں اس مہم نے سوشلسٹ نظریات کو ایسا محسوس کیا جیسے عجائب گھر کا ایک نئا نمبر 😂. ان ارب پتیوں کا یہ جواب دہ کام ہوا، اب لोग بھی سوچنا شروع کر دے گے کہ کیا انki پیسے کی قدر کتنے میں آ رہی ہے?

میٹرو نہیں اور ٹیلی فون پر پب لینا اتنا بھی مشکل ہو گیا ہے, اب یہ لوگ بھی سوچنے لگے گے کہ میٹرولینز کی کس مقدار سے یہ کامیاب ہوا؟

جیت جیتتے ممدانی کو اس پر خوش رہنا چاہئے, اور اب انہیں اپنی پیسے کی بڑی قدر کو ایک نیا مقصد دیکھنا چاہئے, وہ لوگ جو لوٹوں میں پڑ گئے تھے اس وقت ایک نئی جنگ لڈنی چاہئیں.

میں یہ دیکھ رہا ہوا کہ ارب پتیوں کی یہ ناکامی انki پیسے کو ایک نیا محور بنانے کی طرف مائل کر رہی ہے, اب وہ لوگ جو بے روزگار تھے اس وقت ایک نئی کوشش کرنے لگے گے.
 
علاوہ ازیں کہ ممدانی نے اپنے مہربان ارب پتیوں کو شکست دی، لیکن یہ بات تو محسوس ہے کہ وہ لوگ واضح طور پر ان کی مدد کر رہے تھے...

مائیکل بلوم برگ کی لاکھوں ڈالر کی عطیات نے صرف یہی بتایا کہ ان ارب پتیوں میں سے کون کی جتن زیادہ دولت و مملکت کا دावبا ہو، اس کس لئے بھی ایم اے ناکام رہا...

اس دuniya کے باقی لوگوں میں ممدانی کی جیت پر یہ خوشی ہے...
 
بھی کیا یہ ان ارب پتیوں کے لئے ناکام ہونا ایک خुशی ہو گی؟ مین بلیوم برگ جیسے امیر لوگ ابھی بھی اپنے پیسے سے لڑ رہے ہیں اور اگر وہ ناکامی کا شکار ہوتے تو ان کی خushi کیسے ہو گی؟ یہ بات محو حیرت نہیں ہے کہ امیر لوگ دوسرے لوگوں کے پیسے سے لڑتے ہیں، لیکن ابھی تک اس کی کوئی حد نہیں پائی گئی تھی۔

اس میں ایک بات بھی ہے کہ میڈیا نے ارب پتیوں کے نام اور ان کی مہموں پر کام کیا، لیکن اس نے ان لوگوں کے لئے بھی جو ناکام رہے ہیں، ان کی بات چیت نہیں کی اور ان کی جائیداد پر ایک نظر نہیں دی جس سے یہ سوچنا آئے کہ ان کی مہم ہمیں کیا دے گی۔
 
یہ بات حقیقت میں ایسی ہی اچھی ہے جیسا کہ میں نے اپنے بچپن میں سونے والے ماجید کیوں فنانس کا ذکر کیا تھا، اُس کو بھی وہی ڈالر دیتا تھا جو اس نے اپنی پالیسیوں پر خرچ کرتا تھا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ارب پتیوں کا یہ ڈالر اُس جگہ تک پہنچ سکتا ہے جہاں عوام کی بات کے برابر ہو۔
 
واپس
Top