پیزا کھانے سے ہاتھ رکنا کیسے نہ ہو؟
پٹیا کے کھانے میں لوگ اپنی لذت لے لیتے ہیں اور کچھ دیر پھر واپس آتے ہیں۔ سچ رہے تو جیسا ہی ہاتھ میں پٹیا کا نوالہ لگتا ہے، اس وقت کی ذائقہ کی تلاش نہیں کرتا بلکہ ہر دیر کی سلائس اور کھانے کی تلاش میں دلاتا ہے۔ ایسا کون کر سکتی ہے؟ اس کے پچھلے ہیں اس سے متعلق ایک خاص ذائقہ کہا جاتا ہے جو دماغ کو خوشی اور تسکین کا سگنل دیتا ہے۔
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو پٹیا کی لذت کا شوق ہے۔ لیکن اس کھانے کے باوجود ہاتھ رکنا مشکل ہے، اس کا سچ رہے سے جو نتیجہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جیسے ہی پٹیا کا نوالہ منہ میں جاتا ہے، دماغ اور زبان دونوں اس وقت رکنے کا نام نہ لیتے۔
ماہرین کے مطابق، یہ امتزاجی ذائقہ دماغ کو خوشی اور تسکین کا سگنل دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک بار فیر پٹیا کھانے لگتے ہیں۔
پٹیا کے ذائقے کی اصل طاقت ٹماٹر اور چیز کا میل ہے، جس میں ایک امینو ایسڈ گلوٹامک پایا جاتا ہے جو اومامی فلیور پیدا کرتا ہے۔ اس گلوٹامک اسی ذائقے کو مزید بڑھاتا ہے جس سے زبان کی خاص ذائقاتی خلیات متحرک ہوتی ہیں اور دماغ کو ”مزہ آرہا ہے“ کا سگنل دیتے ہیں۔
اس لذت میں لوگ ایک کے بعد ایک سلائس کھاتے چلا جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اومامی فلیور زبان کی رطوبت کو بڑھاتا ہے جس سے ذائقہ زیادہ محسوس ہوتا ہے، اس طرح ایک بار فیر پٹیا کھانے لگتے ہیں۔
پٹیا کے ذائقے میں کھٹا، نمکین اور تیز مصالحے والے ذائقوں کا توازن پایا جاتا ہے جو کھانے کی لذت بڑھا دیتا ہے، اس سے دماغ کو ایک ”ریوارڈ سگنل“ ملتا ہے۔
ٹماٹر قدرتی طور پر اومامی ذائقے والی پھلون میں شامل ہیں جس کے نتیجے میں اس میں موجود گلوٹامک ایسڈ کی مقدار بڑھتی ہے جو اومامی فلیور پیدا کرتا ہے۔
جب ٹماٹر، پگھلے ہوئی چیز کے ساتھ مل کر پٹیا پر پڑتے ہیں تو یہ ذائقہ کئی گنا طاقتور ہو جاتا ہے اور دماغ کے ان حصوں کو متحرک کرتا ہے جو خوشی اور خواہش کو کنٹرول کرتے ہیں، اس لیے پٹیا کھاتے وقت ہاتھ رکنا مشکل ہوتا ہے۔
پٹیا کے کھانے میں لوگ اپنی لذت لے لیتے ہیں اور کچھ دیر پھر واپس آتے ہیں۔ سچ رہے تو جیسا ہی ہاتھ میں پٹیا کا نوالہ لگتا ہے، اس وقت کی ذائقہ کی تلاش نہیں کرتا بلکہ ہر دیر کی سلائس اور کھانے کی تلاش میں دلاتا ہے۔ ایسا کون کر سکتی ہے؟ اس کے پچھلے ہیں اس سے متعلق ایک خاص ذائقہ کہا جاتا ہے جو دماغ کو خوشی اور تسکین کا سگنل دیتا ہے۔
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو پٹیا کی لذت کا شوق ہے۔ لیکن اس کھانے کے باوجود ہاتھ رکنا مشکل ہے، اس کا سچ رہے سے جو نتیجہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جیسے ہی پٹیا کا نوالہ منہ میں جاتا ہے، دماغ اور زبان دونوں اس وقت رکنے کا نام نہ لیتے۔
ماہرین کے مطابق، یہ امتزاجی ذائقہ دماغ کو خوشی اور تسکین کا سگنل دیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک بار فیر پٹیا کھانے لگتے ہیں۔
پٹیا کے ذائقے کی اصل طاقت ٹماٹر اور چیز کا میل ہے، جس میں ایک امینو ایسڈ گلوٹامک پایا جاتا ہے جو اومامی فلیور پیدا کرتا ہے۔ اس گلوٹامک اسی ذائقے کو مزید بڑھاتا ہے جس سے زبان کی خاص ذائقاتی خلیات متحرک ہوتی ہیں اور دماغ کو ”مزہ آرہا ہے“ کا سگنل دیتے ہیں۔
اس لذت میں لوگ ایک کے بعد ایک سلائس کھاتے چلا جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اومامی فلیور زبان کی رطوبت کو بڑھاتا ہے جس سے ذائقہ زیادہ محسوس ہوتا ہے، اس طرح ایک بار فیر پٹیا کھانے لگتے ہیں۔
پٹیا کے ذائقے میں کھٹا، نمکین اور تیز مصالحے والے ذائقوں کا توازن پایا جاتا ہے جو کھانے کی لذت بڑھا دیتا ہے، اس سے دماغ کو ایک ”ریوارڈ سگنل“ ملتا ہے۔
ٹماٹر قدرتی طور پر اومامی ذائقے والی پھلون میں شامل ہیں جس کے نتیجے میں اس میں موجود گلوٹامک ایسڈ کی مقدار بڑھتی ہے جو اومامی فلیور پیدا کرتا ہے۔
جب ٹماٹر، پگھلے ہوئی چیز کے ساتھ مل کر پٹیا پر پڑتے ہیں تو یہ ذائقہ کئی گنا طاقتور ہو جاتا ہے اور دماغ کے ان حصوں کو متحرک کرتا ہے جو خوشی اور خواہش کو کنٹرول کرتے ہیں، اس لیے پٹیا کھاتے وقت ہاتھ رکنا مشکل ہوتا ہے۔