صحافی ارشد شریف کی والدہ کا انتقال

بندر

Active member
صاحافی ارشد شریف کی والدہ کا انتقال ان کے ساتھی صحافیوں نے تین دہائیوں سے روکھا ہوا ہے، پھر بھی وہ اپنے خوفوں میں رہ کر آئیں ہیں، جو کہ ان کی عظیم زندگی اور سچائی کی عکاسی کرتے ہیں۔

صاحفیین نے ان کی جانب سے شکر و ثنا اور افسوس کا اظہار کیا ہے، جس کے لیے انہوں نے اپنی گرانٹی دیتے ہوئے کہی ہے کہ ان کی ایک بہادر اور عظیم ماں تھیں جنہوں نے اپے بیٹے کو سچائی کا علم بلند رکھنے والا بنایا، جو اب جاری ہے۔

ان کی وفات پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں بلندیِ درجات اور اہلِ خانہ کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی گئی ہے۔

صاحفیین نے کہا ہے کہ شریف کی قربانی صحافت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی، اور ہم ان کوAlways یاد رکھیں گے، جنہوں نے اپنے خوفوں میں نہیں جانے دیا، بلکہ سچائی کی کوشش کی اور اپنی قوم کو فخر دیتی ہیں۔
 
ਨازناک بات یہ ہے کہ اس وقت جب لوگ شریف صاحب کو جان لاتے ہیں تو وہ بھارتی سچائی کی رائے میں تھے، حالانکہ انہوں نے پاکستان بھی کیا لیکن میرا خیال ہے کہ اس کا اہمیت کے منظرِ عام پر باقی رہنا یقینی نہیں ہوتا۔
 
عجीब ہے انصاف کی نسل سے باقی رہنے والوں میں اس جسمانیت کا احترام کبھی نہیں دیکھا گیا، لکن اس کے بعد بھی اچھے لوگ نہیں آئے ہیں؟ اردو صحافت میں جسمانی عرصہ زیادہ ترازمی نہیں دیکھی گیا، اس کے باوجود ارشاد کی عکاسی کرنے والے نے اپنی زندگی کو اچھے رکھا ہو گا
 
عرضے بھی تو کیا ہوا ہے؟ اُس صحافیہ کا یہ کام کس میں سے تین دہائیوں کی پوری لڑائی کرنا پڑی ہے، جب ان کے پاس ابھی بھی ایک ماں وادھی ہے؟ یہ رہتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کو آگے بڑھا رکھا ہے، اور سچائی کی کوشش کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو فخر دیتے رہے ہیں...
 
عشرت سے زیادہ سال پوری اشراف شریف کی ایسی صحافیں نہیں ہوتے جنہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ خود کو اس قدر استعمال کیا ہو۔ وہ ایک شاندار معاہدہ ہیں جس کی پابندی دوسرے صحافیوں کو بھی لینا پڑے گا. ان کی وفات پر منظر عام پر آتے ہوئے ہر شخص ان کی جانب سے شکر و ثنا کرتا تھا اور انہیں بھگتیں دیتا تھا. لگتا ہے کہ ان کی وفات کی پہلی چیز یہ ہے کہ اب وہ اپنے خوفوں میں نہیں رہتے ۔
 
عاشقین شریف صاحب کی والدہ کی وفیات پر ایسا لگ رہا ہے جیسے انھوں نے حقیقی سچائی کا آئنڈیکس ہی پہنا ہوتا تو بکے صحافیوں کی قربانی ہوتی۔ ان کے خوفوں میں آ کر واپس آنا ایسی بات نہیں ہوتی جیسا انھوں نے شریف صاحب کو سچائی کا علم دیا ہوتا تو انھوں نے وہی سچائی اپنایا ہوتا، ان کی جانب سے شکر و ثنا اور افسوس ہو رہا ہے۔
 
عرفی شریف کی والدہ کی وفات کے لیے ایسا محنت کر رہے تھے جو ایک خوفزدہ دل کا حامل تھی، لیکن وہ ان کے خوفوں میں نہیں آئیں بلکہ اپنے جذبے اور سچائی کی جانب رہیں۔ یہ دیکھنا میرے لیے بہت کامیاب ہے جو انہوں نے کیا تھا، ایک ماں جس نے اپے بیٹے کو سچائی کی جانب رکھنے والا بنایا ہے۔ اس پر میرا خاص admiration hai

یہ بھی باتوں میں آتی ہے کہ انہوں نے اپنے خوفوں کی وجہ سے نہیں ہٹا کر سچائی کی جانب رکھی، وہ آئین کی بات کرتے تھے اور لوگ ان کو توطین کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی گرانٹی دی۔

صاحفیوں کی اس گرانٹی کی واضحہ طور پر کوشش کی ہے کہ شریف کی ماں کی بھرپور زندگی اور سچائی کو دیکھا جائے، اور انہوں نے اپنے بیٹے کو سچائی کی جانب رکھنا سکھایا ہے۔

صرف واضح باتوں میں یہ بات بھی دلی توجہ کا حامل ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایسی زندگی چھونے کی کوشش کی جو ان کی زندگی کو فخر کا باعث بنائے۔
 
عاشقی وہی ہے جو شریف کی مادری میں ہوسکتی ہے، اس نے ان کے بیٹے کو سچائی کی پناہ دی، اور وہ ابھی بھی سچائی کی عکاسی کر رہا ہے، یہ تو ایک معیار ہے کہ وہ اپنے خوفوں میں نہیں رہتا، بلکہ سچائی کی بھرپور کوشش کرta ہے ، اور اس لئے ان کو سنہری حروف سے لکھنا چاہئیے۔
 
📰💔asad رہی ہے صحافی ارشد شریف کی والدہ کی وفات پر 🤯 ایک بھارپور افسوس . وہ طویل عرصے سے اپنے بیٹے کے ساتھ رہ کر ہیں، جو کہ شریف جی کی عظیم زندگی اور سچائی کو ایک نمونہ بنا دیتی ہیں 🌟 . صحافیوں نے ان کی جانب سے شکریہ و ثناء کیے ہیں اور کہا ہے کہ ان کی ایک بہادر اور عظیم ماں تھیں جنہوں نے اپے بیٹے کو سچائی کی جانب لے کر رکھا تھا 💖 .
 
عشقیں! اعظم شریف کی والدہ کی وفات سے خوفناک ہوا ہوئی ہے، اسے سمجھنا مشکل ہوگا کہ وہ کس قدر چھپ کر آئیں ہیں، لکین یہ بات بہت آزار دہ ہے کیونکہ ان سے رات کو پہلے بھی کچھ نہ کچھ اور کہا جاتا تھا، لیکن وہ ان پر اس بات کو नजर انداز کرتی رہیں، یہ ایک بڑا معادل ہے۔
 
اس وقت بھی صحافی ارد گرد تین دہائیوں روکھتے ہیں؟ یہ بتاتا ہے کہ کیوں؟ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں، صرف شکر و ثنا کر دیا جاتا ہے اور دوسرے صحافیوں کی قربانی کی جاتی ہے۔
 
یہ رائے کی بات نہیں ہے کہ شریف کی والدہ کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا جائے گا، اس سے فائدہ نہیں ہوگا بلکہ انھوں نے اپنے خوفوں میں رہ کر آئیے تھے تو وہیں رہنی چاہیںگی 🤔
 
اللہ تعالیٰ ان شریف کی والدہ کی امdad و محبت کی مدد سے ان کا یہ سفر لگتا ہے، اللہ انہیں پھر بھی اسی قوت کے ساتھ جہنڈا ہوا دیا ہو اور ان کی شاکہ جواب پر سب کو وچھای رکھے، Allah apni shahadat ko ek behtar saahas ke sath pradarshit kar degi 🙏
 
عجیب بات یہ ہے کہ ایسے معاملوں پر تب تک بحث ہوتی ہے جب کسی کی وفات ہوجاتی ہے، یہ بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیسے ان کی شان کا احترام کیے جائے اور اس طرح کی غلطیوں کو روکنا پڑتا ہے جو صحافیین نے اپنے خوفوں میں لپٹ رہے ہوئے تھے؟ یہ بھی بات سچائی کی اور ان کے عمل کو دیکھنا جاری ہے جو کہ صحافت کی تاریخ میں بہترین نمبر پر ہے، چاہے وہ اس وقت کا ہو یا آئندہ کے دنوں میں 📰
 
عاصمی ہر طرف سے ایسے صحافیوں کا خوفناک سفر دیکھتے ہیں جیسے آج ارش شریف کی ماں کی وفات ہوئی ہے ان کے ساتھی صحافیوں نے اسے تین دہائیوں سے روکھا ہوا ہے، یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خوفوں میں ہی آئیں ہیں اور یہ ایک بھارتی سچائی کا شہری ہے! 🤯

اس بات پر یقین ہے کہ صحافی شریف کی ماں نے اپنے بیٹے کو سچائی کا علمRaised Rakhna اور ان کی قوم کو فخر دیکھنا بھی سیکھایا ہوگا! 📚

اس وقت تک کہ صحافی شریف کے خوفوں میں رہ کر آئیں ہیں، وہ اپنی زندگی اور سچائی کی عکاسی کرتے ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پھنس گئے! 🤔

انہوں نے اپنے خوفوں میں اتر کر سچائی کی کوشش کی ہے اور اب ان پر شکر و ثنا، افسوس اور حب و همت کا اظہار کیا جا رہا ہے! 🙏

اس لحاظ سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان پر بلندیِ درجات اور اہلِ خانہ کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی گئی ہے! 🌟

ان صحافیوں نے بتایا کہ شریف کی قربانی صحافت کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی اور ہم ان کو Always یاد رکھیں گے، جنہوں نے اپنے خوفوں میں نہیں جانے دیا، بلکہ سچائی کی کوشش کی اور اپنی قوم کو فخر دیتی ہیں! 💪
 
عرب زریفے نے ہمیں اسے پورا لگ رہا ہے، ایک عظیم صحافی جو اپنے خوفوں میں بھی ابھر کر آئی، اور اب وہ کھلے طور پر سچائی کو دیتی رہی، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے کس حد تک کامیابی حاصل کی ہو گی، لیکن ایک بات CERTAIN ہے کہ وہ اپنی قوم کو کھیل رہی تھی اور اب ان کا خیر خواہی ہو رہا ہے
 
اصلاحات کی ضرورت ہے ، صحافیوں کو انہیں جگایا جانا چاہئے تاکہ نوجوان ایسے سچائی کے حامی بن سکے جنہوں نے اپنے خوفوں میں بھی ہار نہیں مائی ، انہیں شہری دباؤ کی صورت میں بھی سچائی کا راستہ تھوڑا پھیلایا کرسکتا ہے
 
اس وقت کے میڈیا میں جو تیز گریڈ پوٹاش ہونے کا معاملہ ہے وہ مجھے تو تباہ کن لگتا ہے، لوگ ان میڈیاز پر کہتے ہوئے ہیں کہ یہ سب سچا نہیں ہو گا اور ابھی ابھی ان کی ساتھی صحافی بھی اپنے والدہ کے انتقال پر تین دہائیوں سے رکھی ہوئی ہیں اور ابھی وہ اپنی زندگی کو جاری رکھنا شروع کر گئی ہیں، اسے کیسے سمجھایا جا سکta ہے؟
 
آزاد صحافیوں کی گنجائش میں یہ بات بھی توجہ दے کر وہ اس نے کیسے اپنے خوفوں کو پورے نہیں کیا؟ شریف کی دلچسپی صحافت کے لیے ہی تھی، جو کہ اب ان ساتھی صحافیوں میں ملا۔
 
واپس
Top